1707 اورنگ زیب کی وفات کے ساتھ ہی ہندوستان میں مسلمان اقتدار زوال کا شکار ہو گئے اس کے جانشینوں کی حکومت اگرچہ مزید ڈیڑھ سو سال تک جاری رہی لیکن وہ برائے نام تھی اٹھارہ سو تین میں انگریز دہلی میں داخل ہوگئے تھے اور مسلمان سیاسی لحاظ سے تقریبا ختم ہو چکے تھے معاشرتی اور دینی لحاظ سے بھی ان کی حالت بہت خراب تھی اس پس منظر میں شاہ ولی اللہ اور شاہ عبدالعزیز جیسے عظیم انسان اصلاح احوال کے لیے اٹھے اٹھارہ سو سولہ سے اٹھارہ سو تیس تک سید احمد بریلوی نے مسلمانوں کو مذہبی اور سیاسی سنبھالا دینے کی کوشش کی انہوں نے سکھوں کے خلاف جہاد کیا اور پشاور کے قریب سکھوں کو شکست دے کر قبائلی علاقوں میں اسلامی نظام حکومت کی داغ بیل ڈالی مگر باز افغان سرداروں کی غداری کے اسباب سید احمد بریلوی کو بالا کوٹ کے مقام پر شکست ہوئی اور ان کی ساری کوششوں پر پانی پھیرا گیا اس زمانے میں بہار میں فرائضی تحریک اٹھی جس کا مقصد مسلمانوں کو ذلت اور غربت سے نجات دلانا تھا۔
اٹھارہ سو ستاون کی ناکام جنگ آزادی کے نتیجے میں مسلمانوں پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹ پڑے مسلمانوں کی جائیدادیں اور عہدے ان سے چھین لیے گئے تعلیم کے دروازےان پر بند کر دیے گئے انہوں نے نہ صرف مسلمانوں کو ذلیل و خوار کرنے میں انگریزوں کا ساتھ دیا بلکہ ترقی کی دوڑ میں ان سے آگے نکلنے کی کوششییں تیز کر دیں مایوسی کے اس دور میں سرسید احمد خان اٹھے انہوں نے مسلمانوں کو حوصلہ دیا اور انہیں وقت کے تقاضوں کا احساس دلایا انہوں نے اس مقصد کے لیے اپنی زبان کا علم اور عمل ہر شے سے کام لیا۔
اسباب بغاوت ہند خطبات احمدیہ جیسی کتابیں لکھی رسالہ تہذیب الاخلاق جاری کیا علی گڑھ کالج قائم کیا پنجاب کا دورہ کر کے مسلمانوں کو اپنے تعلیمی ادارے کھولنے کی ترغیب دی جس کے نتیجے میں انجمن حمایت اسلام جیسے ادارے قائم ہوئے جن کا مقصد مسلمانوں کو پستی اور ذلت سے نکالنا تھا 1857 میں بنارس کے ہندوؤں نے اردو کی جگہ ہندی کو دفتری زبان بنانے کا مطالبہ کیا تو سرسید بھانپ گئے کہ ابھی ہندوؤں کے ساتھ چلنا ناممکن ہو گیا ہے چنانچہ 1885میں جب انڈین نیشنل کانگریس وجود میں آئی تو سرسید نے مسلمانوں کو اس میں شمولیت سے روکا۔
سر سید کے بعد ان کے رفقائے کار نے ان کے کام کو جاری رکھانواب محسن الملک کی تعلیمی کوششیں وقار الملک کی سیاسی جدوجہد مسدس حالی کی شاعری میں حالی کی انقلاب آفریں شاعری اور اور سید امیر علی کی انگریزی ان لوگوں نے اس بات پر زور دیا کہ مغربی علوم کا حصول اسلام سے متصادم نہیں اور نہ ہی اسلام کے خلاف ہے ان حالات میں لکھنؤ میں ندوۃ العلماء اور دیوبند کی درسگاہ کا قیام عمل میں آیا ان اداروں کو سرسید کی جدیدیت کا ردعمل کہا جاسکتا ہے بہرحال سرسید کی تحریک سے جدید علوم پھلے پھولے اور علمی دینی اداروں نے قدیم اسلامی امور کو زندہ رکھا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ مذہب کے بھی قریب آئے مغرب کی ذہنی غلامی سے نجات ملی اور ذاتی شناخت کی راہ بھی نکلی جس کے لئے اطاعت و ضبط النفس اور نیابت الہی کی تین منزلیں رکھی انہوں نے توحید پر زور دیا کہ مسلمان غیر اللہ سے بے نیاز ہو جائے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ابھاری تاکہ ان کے اسوہ حسنہ کی پیروی ہو سکے اور قرآن پاک کی تعلیمات پر زور دیا کہ وہ ایک مکمل ضابطہ حیات پیش کرتا ہے اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے مسلمان قوم میں مایوسی کی جگہ جرات اور حرکت و انقلاب کا جذبہ پیدا کیا۔
ان تمام کوششوں سے مسلمان قوم متحرک ضرور ہوئی لیکن معاشی تعلیمی اور سیاسی لحاظ سے ابھی بہت پسماندہ تھی اس کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ علم و ادب کے لحاظ سے مسلمانوں نے خوب ترقی کی علی گڑھ کالج یونیورسٹی کا درجہ اختیار کرگیا حیدرآباد دکن میں جامعہ عثمانیہ جیسا شاندار ادارہ قائم ہوا لاہور میں انجمن حمایت اسلام جیسے ادارہ وجود میں آیا اس سے خصوصاً ہندوؤں کو اندازہ ہوگیا کہ اب مسلمانوں کو پیچھے رکھنا ممکن نہیں۔
بیسویں صدی کے آغاز کے ساتھ ہی برصغیر کے سیاسی ماحول میں سرگرمیاں آ گئیں تقسیم بنگال کے خلاف ہندوؤں نے زبردست تحریک چلائی اردو ہندی جھگڑا پیدا ہوا علی گڑھ یونیورسٹی کو جھگڑے میں حصہ لینے سے روک دیا گیا چنانچہ مسلمانوں نے شدت سے اپنی ایک الگ سیاسی تنظیم کی ضرورت محسوس کی 1906 میں مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا اور مسلمانوں کے سیاسی حقوق کے تحفظ کا کام شروع کر دیا انتخاب کا حق حاصل کیا اور ساتھ حکومت نےخود اختیاری کا مطالبہ بھی کر دیا جسے اس وقت تو انگریز حکومت نے تسلیم کرلیا لیکن جنگ عظیم میں اپنی کامیابی کے بعد وہ اس وعدے سے پھر گیا اور ظالمانہ قوانین سے اہل ہند کو دبانا چاہا۔
انیس سو انیس میں ترکی کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی سازش ہوئی تو 1920 میں مسلم لیگ اور کانگریس دونوں جماعتوں نے عدم تعاون کی تحریک شروع کردی جسے گاندھی نے اچانک بند کر دیا اسی اثنا میں ہندو نے شدھی اور سنگھٹن کی تحریک شروع کی تو مسلمان ان سے بد ظن ہو گئے۔
مرکز میں فیڈریشن اور صوبوں میں حکومت خود اختیاری کا نفاذ طے پایا مگر کانگریس مسلمانوں کو ہر لحاظ سے ملیامیٹ کرنے پر تل گئی اور ہندو مسلم اتحاد کا خواب بکھر گیا ان حالات میں قائداعظم نے کانگریس کے معاندانہ رویے سے مایوس ہو کر مسلم لیگ کی قیادت سنبھالی اور مسلمان کو سیاسی طور پر زندہ کر دیا مسلم لیگ نے 23 مارچ 1940 کو لاہور میں قرارداد پاکستان منظور کی اور مسلمانوں کیلئے ایک الگ خودمختار حکومت کا مطالبہ کر دیا۔
انیس سو چھیالیس میں انتخابات ہوئے تو ہندوؤں میں کانگریس اور مسلمانوں میں مسلم لیگ نمایاں طور پر کامیاب ہوئے انگریزوں نے ہندوستان کی سیاسی صورتحال کو پرسکون بنانے کی ایک کوشش کی انہوں نے ایک وزارتی مشن ہندوستان بھیجا مگر انگریز کی ہمدردیاں چونکہ ہندوؤں کے ساتھ تھی اس لیے یہ غیر منصفانہ کوشش کامیاب نہ ہوسکی اس دوران ملک میں خوفناک ہندو مسلم فسادات کا آغاز ہو گیا جنوری 1947 میں مسلم لیگ نے ایک زبردست تحریک چلائی جس سے انگریز کو اندازہ ہو گیا کہ اب مسلمانوں کے ایک الگ ملک کے مطالبے کو زیادہ دیر تک دبایا نہیں جا سکتا اگرچہ اس دوران میں ہندوؤں نے دس لاکھ مسلمانوں کو قتل کیا اور فساد کا بازار گرم رکھا لیکن ان قربانیوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہندو اور انگریز دونوں کو مسلم لیگ کے مطالبہ کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑے اور 14 اگست 1947 کو پاکستان دنیا کے نقشے پر ابھرا۔
پاکستان بن چکا تھااور اس کے قیام کے ساتھ نہ صرف برصغیرتھا کے مسلمانوں اور پوری دنیا کے مسلمانوں کو اندازہ ہو چکا تھا کہ اگر پاکستان کو اپنے لئے اور پوری اسلامی دنیا کے لیے اپنی ایک اسلامی جمہوری مملکت بنانا ہوگا یہاں پر دولت کی تقسیم اور لوگوں کا معیار زندگی بلند ہوگا اور صحیح اسلام پاکستان کا نصب العین ہوگا وہ اسلام جو قرآن نے پیش کیا جس پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا وہ خلفا راشدین کا نشان امتیاز ھوگا تا کہ ان کی زندگی میں سچائی دلیری انکساری خود اعتمادی امن پسند مساوات اور صبر تقوی جیسی خوبیاں ابھریں تا کہ وہ آسمان کی بلندیوں کو چھونے میں کامیاب ہوجائیں۔
No comments:
Post a Comment