پورے گھر میں شام کے بعد تاریکی کے سائے گہرے ہو گئے تھے اس اندھیرے اور تنہائی میں اچھن کا جی گھبرا رہا تھا اس اسے اپنے باپ کا انتظار تھا جو کام سے واپس آ کر نہ جانے کہاں چلا گیا تھا اس کا رونے کو جی چاہتا تھا لیکن اسے رویا بھی نہیں گیا۔
چند دنوں سے جسم کے ساتھ ساتھ اس کا دماغ بھی کمزور ہو گیا تھا اسے یوں لگتا جیسے نئے سفید کپڑوں میں لپٹے ہوئے ڈھانچے سامنے کی کوٹھری سے نکل کر سارے گھر میں گھوم پھر رہے ہوں رات تو رات اسے دن میں بھی اکثر یہی وہم ہوتا وہ آنکھیں بند کر کے چارپائی پر لیٹ گئی اس اثنا میں دروازہ مانوس طریقے سے کھلا اور اس کا باپ کمرے میں آگیا گھر میں اندھیرا دیکھ کر اس نے جیب سے دیا سلائی نکال کر پہلے اپنی بیڑی لگائی اور پھر دیا جلانے کے لیے دیا سلائی ا چھن کو دے دی اچھن کا جی متلانے لگا تو اس نے باپ کو بیڑی پینے سے منع کیا۔
باپ نے قدرے غور سے ان کی طرف دیکھا تو اسے اس کی صورت بڑی بھیانک سی لگی اچھن کے بکھرے بال کھلے ہوئے ہونٹ اور پھری ہوئی پتلیاں دے کر اسے اس کی ماں یاد آگئے جو آج سے دو سال قبل اسی حالت میں بستر پر پڑی کفن کا انتظار کر رہی تھی اس نے کفن کا بندوبست کرنے کی بہت کوشش کی لیکن ناکام رہا آخر جس کا دکان پر دس روپے مہینے کے عوض صبح سے شام تک کام کرتا تھا اس کے پاس گیا جس نے 25 روپے اس کے ہاتھ پر رکھ دیئے اور یوں اچھن کی ماں 25 روپے کا خرچ کروا کے زمین میں جا چھپی۔
ماں کے مرنے کے بعد اچھن بھی روز بروز بیمار پڑتی جا رہی تھی وہی اپنی ماں کی طرح ہلکی ہلکی کھانسی بخار اور سستی باپ اسکی بیماری کو سمجھتا تھا لیکن علاج کیسے کرتا زیادہ سے زیادہ سرکاری ہسبتال کی دواییں لا سکتا تھا جن میں پانی زیادہ تھا اسکی تنخواہ اب بھی وہی دس روپے تھی جس میں گھر کا گزارا بھی مشکل تھا تو دوا کہاں سے لاتا ایک بار اسکے دل میں خیال آیا کہ مالک سے تنخواہ بڑھانے کا کہے لیکن اس سے پہلے ہی مالک نے سنانا شرو ع کر دیا چونکہ بوڑھا ہونے کی وجہ سے اس سے سہی کام نہیں ہوتا تھا اس لئے اسے اب گھر آرام کرنا چاہیے ۔
یوں وہ اسی تنخواہ پر کام کرنے پر مجبور تھا ادھر اچھن سوکھتی جا رہی تھی کچھ لوگوں نے اسے اسکی شادی کا مشورہ دیا کہ سسرال میں کھا ے گی تو اچھی ہو جاۓ گی لیکن وہ یہ نہیں سمجھتے تھے کے غریب کی بیٹی تو غریب کہ گھر ہی جاۓ گی ۔
اس دوران اچھن نے باپ سے چراغ کی لو بڑھانے کو کہا تو باپ نے جواب دیا ہر ہفتے دو پیسے کا تیل بھی بہت مشکل سے ملتا ہے اور تو روز لو بڑھانے کی رٹ لگاتی ہے بس اتنا ہی تیل ملے گا کہ چراغ جلتا رہے ۔
اچھن اپنے باپ کے جواب سے مایوس ہو کر دلان سے باہر نکل آ ئی اور اپنی چارپائی پر پاؤں لٹکا کر بیٹھ گئی اسے اپنے ابا پر غصہ آ رہا تھا کہ وہ اس براۓ نام روشنی پر قنایت کیوں کئے ہوے ہے نکڈ والے دو منزلہ مکان میں تمام رات روشنی رہتی ہے۔
لیکن وہ یہ نہ سوچ سکی کے وہ اتنے تیل کی رقم کہاں سے لا یں گے کیوں کے اسکے باپ کہ معاوضے سے وہ جینے کی نقل اتار رہےہیں جی نہیں رہے بلکل اس طرح جیسے سیاہ طاق میں رکھا چراغ روشنی کی بد نما نقل اتار رہا ہو یہ سوچ کر اچھن کا دل بھر آیا مگر اس سے رویا بھی نہ گیا۔
No comments:
Post a Comment