اندلس کے شہر غرناطہ میں قاضی یحیی بن منصور کے مکان کے ایوان میں حلاوہ نامی خاتون افسردگی کے عالم میں بینچ پر بیٹھی ہوئی تھی حلاوہ قاضی ابن منصور کے اکلوتے بیٹے زبیر کی دایا تھی وہ صرف تین دن کا تھا کہ اس کی ماں انتقال کر گئ اس نے اسے پالا پوسا جوان کیا۔
زبیر کے ہاتھوں ایک نوجوان کا قتل ہو گیا تھا تو اس کے باپ یحییٰ بن منصور نے جو قرطبہ کا قاضی تھا اسے پھانسی کی سزا کا حکم سنایا آج اس پر عمل درآمد کا دن تھا اور اسی لیے ہر دایا پریشان بیٹھی تھی اسی اثنا میں عبداللہ نامی غلام یحییٰ بن منصور کا قدیمی نوکر تھا کمرے میں داخل ہوا حلاواہ کو اس بات پر برا بھلا کہنے لگا کہ زبیر کی پھانسی کے منہوس کلمات اپنی زبان سے کیوں نکال رہی ہے ۔
حلاوہ نے مایوسی سے کہا کہ زبیر کا زندگی کا آخری دن ہے اور وہ عدالت کی حراست میں ہوگا اور شام ہونے سے پہلے پہلے اس کی زندگی ختم کر دی جائے گی ان حالات میں اس کے بچنے کی کوئی امید نہیں ہے عبداللہ نے جوش میں آکر کہا زبیر زندہ رہے گا اللہ کے فضل سے تجھے اور مجھے اپنے ہاتھوں سے قبر میں اتار ے گا۔
اس وقت پورے قرطبہ میں ایک بھی شخص ایسا نہیں کہ جو کسی کے بھی حکم۔چاھے زبیر کے باپ کا ہی کیوں نہ ہو اسےسولی پر چڑھانے کے لیے تیار ہوں لوگوں نے پورے شہر کی ناکا بندی کر رکھی ہے شہر میں داخل ہونے والے ہر شخص سے حلف لیا جائے گا کہ زبیر کا خون بہانے سے کوئی سروکار نہ ہوگا آج کسی بھی صورت میں قاضی کے حکم کی تعمیل نہیں ہونے دی جائے گی ۔
دایا نے کہا کہ میں زبیر کو سولی پر لٹکا ہوا دیکھ رہی ہوں زبیر کی لاش کو دیکھ چکی ہوں اگر اس بات نے سچ کا روپ دھار نہ لیا ہوتا تو کبھی میری زبان پر نہیں آتی عبداللہ نے کہا کہ زبیر کو پھانسی کی سزا کا حکم سنا نا غلط ہے کیونکہ اس نے یہ خود اپنی محبت اور غیرت کی خاطر کیا ہے۔
اب اس بحث میں پڑھنے کا کیا فائدہ جائز ہے یا ناجائز زبیر کو ہر حالت میں پھانسی دے دی جائے گی عبداللہ نےحلاوا کو کھڑکی میں سے چوک کا منظر دیکھا اور کہا کہ تمام لوگ اردگرد تماشہ دیکھنے نہیں کھڑے بلکہ یہ لوگ اس لیے جمع ہیں کہ زبیر کو کسی بھی صورت میں پھانسی پر لٹکتا ہوا نہیں دیکھیں گے۔
اسی دوران قاضی ابن منصور وہاں آتے ہی پوچھا کہ شہر میں زبیر کے پھانسی کا اعلان کیوں نہیں ہو رہا اور جلاد جس نے مجرم کو پھانسی دینی ہے وہ کہاں ہیں عبداللہ نے قاضی صاحب کو صاف صاف بتا دیا کہ اس وقت شہر میں ایک بھی شخص ان کے حکم کی تعمیل نہیں کرنا چاہتا یہ سن کر قاضی حکم دیا کہ عدالت کے عہدے داروں کو بلوایا جائے حلاوہ نے آگے بڑھ کر بڑے جذباتی انداز میں منصور کی شفقت پدری کو بیدار کرنے کی کوشش کی اپنی ممتا کی محبت کے واسطے دیے کہ وہ زبیر کی جان بخشی کر دیں لیکن قاضی نے مختصر جواب دیا کہ تم نے جو کچھ کہنا تھا کہہ چکی ہو میں بہرا نہیں ہوں۔
عدالت کے عہدے داروں کو بلایا گیا اور قاضی نے پھانسی دینے کا حکم دیا لیکن انہوں نے کہا کہ ہم زبیر کو قصوروار نہیں مانتے اسی لیے ہم اپنے ہاتھوں سے پھانسی نہیں دیں گے ہجوم میں کسی کو یہ خدمت سر انجام دینے کو کہا لیکن انہوں نے اس بات کو ہنسی میں اڑا دیا پھر اس نے عدالت کے ایک عہدیدار کو چابی دے کر کہا مجرم کو جیل کی کوٹھڑی سے چبوترے پر پہنچایا جائے حکم کی تعمیل ہو گی موت کا فنکارہ بجنے لگا اور ہر طرف رونے اور چیخنے چلانے کی آوازیں آنے لگیں اور پھر موت کا پہرہ بجنا بند ہوگیا ۔
اور ہر طرف سناٹا چھا گیا مجرم کو تختہ دار پر پہنچا دیا گیا زبیر موت کے گھاٹ اتر گیا۔
قاضی منصور بڑے تھکے ہوئے انداز میں اپنی پوری قوت ارادی کو جمع کرکے لڑکھڑاتا ہوا اپنے مکان میں داخل ہوگیا ہے بڑی مشکل سے اوپر والے حصے میں پہنچا اور ایک کمرے میں داخل ہو کر اپنے آپ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس میں مقفل کرلیا
No comments:
Post a Comment