کہانی کے ایک کردار بابو جی بیان کرتے ہیں کہ میں اپنے محلے کی بڑی گلی کے موڑ پر پہنچا تو وہاں ایک بھی تانگا نہیں تھا حالانکہ عام طور پر وہاں تین چار تانگے ہر وقت موجود رہتے تھے مجھے ایک دعوت میں شرکت کے لیے خاصی دور جانا تھا اور مجھے جلدی بھی تھی اچانک میں نے فیکے کوچوان کو اپنی طرف آتے دیکھا میرے پوچھنے پر فیکےنے بتایا کہ آج اس نے تانگہ نہیں جوڑا کیونکہ اس کے باپ کی آنکھ کی بینائی ضائع ہوگئی ہے وہ مصری شاہ ایک حکیم سے اپنی آنکھوں کی سرخی ختم کرنے کے لئے ایک دوائی لے آیا تھا گھر آکر جب اس نے دوائی کو استعمال کیا تو آنکھ میں درد کی شدت کی وجہ سے تڑپنے لگا پہلے تو وہ گھر میں ہی علاج کرتے رہے لیکن جب درد کی شدت میں کمی نہ آئے تو اسے ہسپتال میں لے گئے میو ہسپتال میں ایک چوکیدار کی سفارش پر اسے داخل تو کر لیا گیا ہے لیکن جگہ برآمدے میں ملی ہے لیکن مجھے بتایا کے پورا دن گزر جانے کے باوجود کسی ڈاکٹریا نرس نے اس کے باپ کو نہیں دیکھا۔
فیکے نے اس سلسلے میں مجھے ہسپتال میں کسی سے سفارش کرنے کو کہا لیکن مجھے چونکہ دعوت پر جلدی پہنچنا تھا اس لئے میں نے ھسپتال میں اپنے ایک واقف ڈاکٹر جبار کا بتایا اور کہا کہ اس سے مل لے فیکے نے میرا شکریہ ادا کیا اور چلا گیا۔
راستے میں جاتے ہوئے جب میرا تانگہ میو ہوسپیٹل کے گیٹ کے قریب سے گزرا تو میں نے دیکھا کہ فیکا کوچوان گیٹ کے چوکیدار سے باتیں کر رہا ہے میرے دل میں خیال آیا کہ مجھے میو ہسپتال جا کر اسکے باپ کی سفارش کرنی چاہیے لیکن اس دوران تانگہ ہسپتال سے آگے نکل چکا تھا تھوڑی دور جا کر میرے تانگے کاگھوڑا پھسل گیا اسے اٹھانے میں دس منٹ لگ گئے۔
اس اثنا میں ڈاکٹر جبار کا سکوٹر میرے پاس سے گزرا میں نے آواز دی لیکن وہ دور جا چکے تھے اگلے روز فیکےنے گھر آکر مجھے بتایا کہ
ڈاکٹر جبار سےاس کی ملاقات نہیں ہوسکی مجھے ابھی شیوکرنی تھی اور پھر چائے پینی تھی اس لیے میں نے فیکےکو اپناکارڈ دے کر کہا کہ وہ اس ڈاکٹر صاحب کو دے دے فورا کام ہو جائے گافیکا میرے گھر سے کارڈ لے کر یوں روانہ ہوا جیسے دنیا جہان کی دولت سمیٹ کر لے جا رہا ہو۔
شام کو فیکے نے مجھے آکر بتایا کہ اسے کسی نے ڈاکٹر صاحب کے کمرے میں جانے ہی نہیں دیا میں نے اگلے روز اس کے ساتھ چلنے کا وعدہ کیا لیکن مجھے شیخوپورہ جانا پڑا رات کو گھر آیا تو پتا چلا کے فیکا آیا تھا لیکن اگلے دو تین روز فیکا نہ آیا چوتھے روز میں نے گلی کے موڑ پر موجود کوچوں سے فیکےکے باپ کے بارے میں پوچھا تو پتہ چلا کہ اسے وارڈ میں جگہ مل گئی تھی اس دوران فیکا وہاں آ نکلا اور مجھے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب ابھی تک مجھے ملےہی نہیں میں نے فورا کہا کہ میں نے فون کر دیا تھا اس پر فیکے نےمیرا شکریہ ادا کیااور بہت سی دعائیں دیں۔
اگلی صبح فیکا پھر میرے دروازے پر موجود تھا اس کے باپ کو میو ہسپتال سے کوٹ لکھپت کے ہسپتال میں منتقل کر دیا گیا تھا شہر سے دور ہونے کے باعث وہاں آنے جانے میں زیادہ پیسے لگتے تھے میں نے ڈاکٹر صاحب کو فون کرنے کا وعدہ کیا لیکن سستی کے باعث ایسا نہ کر سکا پانچ چھے دن کے بعد فیکا ملا تو اس نے میرا شکریہ ادا کیااور کہا اس کے باپ کانہ صرف میوہسپتال واپس آ گیا ہے بلکہ اس کا آپریشن بھی ہوگیا ہے اگلے جمعہ کو پ پٹی کھولنی ہے جمعے کی شام کو فیکے نے مجھے بتایا کہ اس کے باپ کی ایک آنکھ ضائع ہوئی تھی دوسری پر بھی اثر پڑ گیا ہے۔
اب دوبارہ آپریشن کرنا پڑے گا میں نے فیکے کو تسلی دی اور ساتھ والی دکان سے ڈاکٹر جبار کو فون کرنے کی کوشش کی لیکن بدقسمتی سے وہ مل نہ سکے میں نے فیکے سے وعدہ کیا کہ میں خود ہسپتال جاکر ڈاکٹر صاحب سے ملوں گا ڈاکٹر جبار سے میرا رابطہ نہ ہو سکا اور اس کے بعد فیکا بھی کہیں غائب ہوگیا دو ڈھائی ہفتے بعد میرے گھر کے دروازے پر دستک ہوئی ملازم نے مجھے بتایا کہ فیکا آیا ہے میں اسکا سامنا نہیں کرنا چاہتا تھا چنانچہ میں ملازم کو ڈانٹا کہ اس نے فیکےکو یہ کیوں بتایا کہ میں گھر پر موجود ہوں۔
بہرحال میں فیکے کا سامنے کرنے کے بارے میں سوچنے لگا اچانک مجھے خیال آیا کہ مجھے مسلسل جھوٹ بولنے کے بجائے اعتراف کرلینا چاہیے کہ میں اس کے لئے کچھ بھی نہیں کر سکا میں فیکےکو ابھی کچھ کہہ نہیں پایا تھا کہ مجھے دیکھتے ہی اس نے زارو قطار روتے ہوئے کہا کہ بابوجی میں کس منہ سے آپ کا شکریہ ادا کرو میرے باپ کی دونوں آنکھیں ٹھیک ہو گئی ہیں اس کی آنکھوں کی یہ بنائی خدا نے یا پھر آپ نے لوٹائی ہےمیں اپکا عمر بھر احسان مند رہوں گا میں نے گہری سانس لی اور کہا کوئی بات نہیں فیکےکوئی بات نہیں
No comments:
Post a Comment