ڈاکٹر مولوی عبدالحق نواب محسن الملک کے بارے میں لکھتے ہیں کہ اللہ تعالی نے نواب محسن الملک کو بہت سی خوبیوں سے نوازا تھا عام طور پر نام بغیر سوچے سمجھے رکھ دیے جاتے ہیں یہاں تک کہ حکومت کی طرف سے خطاب دیتے وقت بھی کسی شخص کی شخصیت اور خطاب میں موزونیت کا خیال نہیں رکھا جاتا لیکن محسن الملک کا خطاب ان کے لیے بڑا مو زوں نکلا۔
وہ پارس پتھر کی مانند تھے جو معمولی باتوں کو چھو لے تو وہ سونا بن جاتی ہیں نواب محسن الملک بھی اپنے پرایے دوست دشمن سب کو کسی نہ کسی طرح اپنا ممنون احسان رکھتے تھے وہ حیدرآباد دکن کی ریاست میں اعلی عہدے پر فائز رہے بعض اوقات انہیں سیاسی مصلحتوں کی خاطر کسی شخص کے خلاف کوئی قدم اٹھانا پڑتا تو ایسے ناپسندیدہ کام کو بھی ایسے سلیقہ سے کرتے کہ مخالف ہمیشہ ان کے احسان مند رہتے۔
نواب محسن الملک بڑے قابل اور ذہین انسان تھے ان میں انتظامی صلاحت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی انہوں نے اپنی ان صلاحیتوں کے جوہر حیدرآباد میں اپنی ملازمت کے دوران دکھائے وہ بڑے سے بڑے پیچیدہ مسائل کو باتوں باتوں میں سلجھا دینے کی صلاحیت رکھتے تھے یوں تو ریاست حیدرآباد کے لوگوں پر ان کے بڑے احسانات ہیں لیکن ریاست کے نظم و نسق کے سلسلے میں ان کی چند چیزیں یادگار حیثیت رکھتی ہیں انہوں نے حیدرآباد دکن کا بجٹ مصر کے بجٹ کے نمونے پر مرتب کیا اس طرح انہوں نے پوری ریاست حیدرآباد کی زمینوں کی حدبندی اور پیمائشیں کیں اور اس کے حساب سے زمین داروں سے لگانا مالیہ وصول کیا جانے لگا۔
اس طرح انہوں نے محکمہ خزانہ اور لگانا وغیرہ کی ادائیگی کے سلسلے میں بڑی اصلاحات کی ان اصلاحات کی بدولت نواب محسن الملک کو حیدرآباد میں جو مقبولیت نصیب ہوئی جو شاید ہی کسی کو نصیب ہوئی ہو چڑھتے سورج کی پجاری تو ساری دنیا ہوتی ہے اصل مقبولیت کا پتہ تب چلتا ہے جب کوئی اقتدار اور عہدے سے محروم ہوتا ہے نواب محسن الملک جب ملازمت کے بعد حیدرآباد سے رخصت ہوئے تو حیدرآباد اسٹیشن پر ہزاروں لوگوں کا مجمع تھا جن میں سے بیشتر غریب یتیم اور بیوہ تھیں جو زار و قطار رو رہے تھے۔
جس زمانے میں نواب صاحب نے ہوش سنبھالا اس زمانے میں برصغیر کے مسلمانوں میں مذہبی جوش و جذبہ بہت تھا کیونکہ عروج خوشبختی اور اقتدار ان سے روٹھ چکے تھے ایسے حالات میں ہر طرف سے مایوس ہو کر آدمی مذہب ہی کی پناہ ڈھونڈتا تھا چنانچہ اس دور کے تمام مصنف اور ادیب مذہب پر کسی نہ کسی انداز میں ضرور لکھتے تھے اگرچہ سرسید اور ان کے بیشتر ساتھیوں کو لوگ بدعقیدہ اور نیچری وغیرہ سمجھتے تھے لیکن ان سب نے مذہب پر کچھ نہ کچھ ضرور لکھاھے نواب محسن الملک کی صرف ایک تصنیف کو خالص مذہبی کہا جا سکتا ہے لیکن ان کی باقی سب تحریریں علمی ہیں یا معاشرتی مگر ان تحریروں کا تعلق کسی نہ کسی سطح پر اسلام یا مسلمانوں سے ہی ہے ان کی تحریروں میں ادبیت فصاحت اور تسلسل کی خوبیاں پائی جاتی ہیں۔
محسن الملک کی آواز میں شرینی اور دل کشی تھی ان کی باتیں سننے والے ان کی ذہانت اور لیاقت کے قائل تھے بغیر سنےنہیں رہ سکتے تھے بدرالدین طیب جی نامی ایک صاحب سرسید اور ان کے مشن کے سخت مخالف تھے نواب صاحب نے ایک دفعہ ان کے سامنے ایسی پردرد تقریر کی کہ وہ آبدیدہ ہوگئے اور علی گڑھ کالج کو ایک بڑی مالیت کا عطیہ دیا بڑے بڑے جلسوں میں جب کسی وجہ سے جلسہ درہم برہم ہونے کا امکان پیدا ہوتا تو نواب صاحب کی خوش بیانی کا جادو کام کرتا اور وہ معاملے کو سنبھال لیتے مہر و محبت اور حوصلہ افزائی سے انہیں خاص ملکہ حاصل تھی۔
مطالعہ کے بے حد شوقین تھے اردو فارسی اور عربی کی کتابیں اور اخبارات برابر پڑھتے رہتے تھے انگریزی نہیں جانتے تھے لیکن انگریزی کتب ترجمہ کر کے پڑھتے تھے اردو کی مخالفت اگرچہ سرسید کے زمانے میں ہی شروع ہو گئی تھی لیکن بعد میں یہ مخالفت زور پکڑ گئی نواب محسن الملک نے اردو کی حمایت میں لکھنؤ کے ایک عظیم الشان جلسے میں ایسے پرجوش تقریر کی کہ لوگوں پر اس کا بے حد اثر ہوا دراصل نواب محسن الملک مرتے دم تک اس شاہراہ پر گامزن رہے تھے
🌸🌸
ReplyDelete