کسی جنگل میں ایک بڑے سے درخت پر ایک کبوتر اور کبوتری امن اور چین سے رہ رہے تھے جب کبوتری نے انڈے دیے تو اسے فکر رہنے لگی کہ کہیں کوئی جانور اس کے انڈے نہ لے جائے ایک دن اس نے کبوتر سے کہا کہ ہم یہاں اکیلے ہیں کوئی ہمارا دوست نہیں ہمیں ایک دو ایسے دوست بنانے چاہئیں جو مصیبت کے وقت ہماری مدد کر سکیں کبوتر نے یہ سن کر کہا کہ یہاں ہماری برادری کا کوئی پرندہ نہیں ہے اس لئے ہم کس کو دوست بنا سکتے ہیں کبوتری نے اسے سمجھایا کہ کسی دوسری برادری کے پرندے یا جانور سے بھی تعلقات قائم کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے کبوتری کی بات کبوتر کے دل کو لگی اس نے کچھ پرندوں سے دوستی کرنے کے بارے میں سوچا لیکن وہ ان سے کافی فاصلے پر رہتے تھے اپنے سے اگلے درختوں پر رہنے والے گدھوں کے ایک جوڑے کا خیال آیا تو اس نے کبوتری سے ان کے بارے میں پوچھا کبوتری نے فورا ان سے ملاقات کی تائید کی تو کبوتر گھدوں کے جوڑے کے پاس جا پہنچا۔
گد ھ نے کبوتر کی باتیں سنیں تو وہ خوشی کا اظہار کرتے ہوئے بولا کہ ہمسائے ماں جائے ہوتے ہیں اور مصیبت کے وقت ایک دوسرے کا سہارا بنتے ہیں ہم تو آج سے ایک دوسرے کے دوست بن گئے ہیں لیکن ہمیں یہ آخری درخت کی کھوہ میں رہنے والے ایک سانپ کو بھی اپنا دوست بنانے کی کوشش کرنی چاہیے اس طرح ہم ہر طرح کے خطرے سے بالکل محفوظ رہیں گے۔
کبوتر کو گد ھ کی یہ تجویز پسند آئی چنانچہ وہ دونوں سانپ کے پاس پہنچے اور اپنے آنے کا مقصد بتایا سانپ نے قدر سوچ بچار کے بعد ان سے کہا کہ دوستی بڑی مشکل ہوتی ہے اس میں ایک دوسرے کی خاطر جان بھی قربان کرنا پڑتی ہے کبوتر اور گد ھ نے سانپ کو یقین دلایا کہ ہم ہر آزمائش میں پورا اتریں گے تو سانپ نے بھی ان کی دوستی کو منظور کر لیا یوں کبوتر گد ھ اور سانپ کی دوستی ہو گئی۔
کچھ عرصے بعد کبوتری نے جو انڈے دیے تھے ان سے نئے بچے نکل آئے کبوتر اور کبوتری دن رات ان کی دیکھ بھال میں مصروف رہتے تھے ایک روز ایک شکاری ادھر آ نکلا صبح سے کوئی شکار اس کے ہاتھ نہیں لگا تھا اس نے سوچا کہ خالی ہاتھ گھر جانا ٹھیک نہیں کیوں نہ کسی گھونسلے سے کسی جانور کے بچے ہیں پکڑ کے لے چلو اس نے جب اس بات کا جائزہ لیا جس درخت کے نیچے کھڑا تھا وہاں ایک گھونسلا دکھائی دیا جو کبوتر اور کبوتری کا تھا شکاری نے اندازہ لگا لیا کے گھونسلے میں یقینا بچے ہیں۔
لیکن اس وقت اندھیرا ہو رہا تھا اور اندھیرے میں درخت پر چڑھنا گھونسلا تلاش کرنا ممکن نہ تھا اس نے گھاس پھونس جمع کرکے آگ سلگائیں تاکہ اس کی روشنی میں درخت پر چڑھ سکے کبوتر اور کبوتری بھی اپنے گھونسلے میں بیٹھے یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے کبوتر نے اپنے دوستوں سے مدد لینے کا ارادہ ظاہر کیا تو کبوتری بولی کے پہلے ہمیں خود کوشش کرکے آگ بجانی چاہیے چنانچہ دونوں بڑی تیزی سے قریبی دریا پر گئے اور اپنے پروں میں پانی بھر کر لائے اور جلتی آگ پر چھڑک دیا اس طرح بار بار پانی بھر کر لاتے رہے اور آگ بھجتی رہی اس کے بعد شکاری نے موٹی موٹی لکڑیاں جمع کی تا کہ آگ دیر تک جلتی رہے اور وہ آسانی سے گھونسلے تک پہنچ سکے۔
اس بار کبوتر اور کبوتری کے گھبرا گئے اور انہوں نے اپنے دوستوں کی مدد لینے کا فیصلہ کیا وہ جلدی سے گدھوں کے جوڑے کے پاس پہنچے اور انہیں ساری صورت حال بتائیں دو نوں نے نہ آؤ دیکھا نہ تاؤان کے ساتھ دریا پر پہنچے اور اپنے بڑے بڑے پروں میں پانی بھر کر لاۓ آگ بھج گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے شکاری تلملا کر رہ گیا اندھیرا بہت ہو چکا تھا اور وہ بار بار درخت پر چڑھنے اترنے سے تھک بھی چکا تھا چنانچہ اس نے رات ا سی درخت کے نیچے گزارنے کا فیصلہ کیا تھا کہ دن کی روشنی میں گھونسلے سے بچے نکال کر لے جائے۔
شکاری کی نیت بانپ کر یہ اپنے دوست سانپ کے پاس گئے اور ساری بات بتائی سانپ نے بڑے غور سے انکی باتیں سنی اور کہا کے تم لوگ اب اطمنا ن سے چلے جاؤ میں صبح سارا بندو بست خود ہی کر لوں گا۔
صبح ہوئی تو شکاری درخت پر چڈ ھنے کے لئے اسکے پاس گیا تو درخت کے تنے کے گرد بہت بڑ ھے سانپ کو دیکھ کر اسکے ہوس باختہ ہو گئے اور وہ اپنا سازو سامان وہیں چھو ڈ کر بھاگ گیا۔
کبوتر اور کبوتری اپنے دوستوں کی مدد سے اپنے بچوں کو بچانے میں کامیاب ہو گئے اور آج بھی چین کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔
شاید اسی لئے دوستی اور امن کے پیغام کے لئے آج بھی کبوتروں کو استمال کیا جاتا ہے۔
Friends are gold
ReplyDelete🌸🌸
Delete