ابن انشاء اپنے سفر نامے کا احوال بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگرچہ ہم نے بہت سے سفرنامے لکھے ہیں لیکن جس سفرنامے کا ہم ذکر کرنے جا رہے ہیں اس کے بارے میں اگر کوئی ہم سے پوچھے کہ یہ کہاں کا ہے تو ہم بتا نہیں سکیں گے کیونکہ ہم کابل کے لئے روانہ ہوئے تھے اور رات ہوگی لیکن ابھی تک کابل نہیں پہنچ سکےتھے پشاور سے ہم روانہ ہوئے تو پائلٹ نے بتانا شروع کر دیا کہ آپ کے نیچے اس وقت درہ خیبر ہے دائیں جانب جلال آباد ہے لیکن کابل اترنے کی بجائے پائلٹ نے طیارے کو پشاور کے ہوائی اڈے پر اتار لیا کیونکہ کابل بادلوں میں گھرا ہوا تھا۔
دراصل ہمارے کابل جانے سے پہلے ہی آثار کچھ اچھے نہیں تھے ہمارے دوست احباب ھمیں وہاں کی شدید سردی سے ڈرا رہے تھے ہم نے سردی سے بچاؤ کے لئے اوورکوٹ خریدنے چاہے تو لوگوں نے سوچا کہ شاید ہم فلسطین یا افغان مہاجرین کے لیے کپڑے جمع کر رہے ہیں اس لئے سب نے اپنے گھسے ہوئے اور پھٹے پرانے کپڑے ہمارے سر پر منڈھنے کی کوشش کی بہرحال اب ہم سفر کے لیے ساز و سامان سے لیس ہوکر کابل پہنچنےکی بجائے پشاور کے ڈین ہوٹل میں پڑے ہوئے ہیں اس ہوٹل کے آثار بتاتے ہیں کہ واقعی کسی انگریزی کی ملکیت رہا ہے کمروں میں غالیچوں کی بجائے ان کی کترنیں کے گھسے پٹے قالین بھی اپنی عظمت رفتہ کی کہانی بیان کر رہے ہیں غرض یہ کہ جدید ہوٹلوں کی نہ اس ہوٹل میں شان ہے اور نہ سہولت۔
ہمیں پی آئی اے کے دفتر جانا تھا پوچھا کہ کہاں ہیں بتایا گیا کہ انٹرنیشنل ہوٹل میں ہے پھر پوچھا کہ انٹرنیشنل ہوٹل کہا ہے تو بتایا کہ بالکل ہمارے ہوٹل کے پیچھے پون میل چلنے کے بعد ہم نےکسی سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ یہ سینما کے ساتھ ہی ہے بالآخر کوئی ادھ میل چلنے کے بعد ہمیں پی آئی اے کا دفتر ملا ہم پشاور کی سیر کرنا چاہتے تھے لیکن اس کی ایک مثال سے ہی ڈر گئے کیونکہ ہم اگر کسی سے پوچھتے کہ در ہ خیبر کتنی دور ہے تو یقینا اس کا جواب بھی یہی ہوتا کہ بس دو منٹ کا راستہ ہے اگلے چوک پر داہنے ہاتھ در ہ خیبر ہی تو ہے۔
پشاور کے ہوائی اڈے پر ایک عجیب وغریب وضع قطع حلیے والے ادھیڑعمر کے بزرگ کو دیکھا ان کی لمبی سرخ داڑھی تھی سر کے بال کنگھی سے بے نیاز پھولدار لباس پہنے ہوئے تھے اور چھڑی کا سہارا لے کر تھوڑا سا لنگڈ ا کر چلتے تھے ہمارے پاس نیوایئر سروس کا ٹکٹ دیکھ کر بولے کہ آپ نے یہ کہاں سے لیا ہم نے بتایا کہ ھمیں یونیسکو کی طرف سے ہم کابل کا سفر کر رہے ہیں انہوں نے ہمیں دیا ہے ان کا نام ڈاکٹر گلبرگ تھا انہوں نے بہت سی کتابیں لکھی ہیں ان کی کتاب اسکیموں ڈاکٹر بہت مشہور ہوئی جو برطانیہ اور امریکہ کے علاوہ کئی ملکوں میں چھپی اس کتاب کو لکھنے سے پہلے وہ گرین لینڈ جاکر اسکیموں کے ساتھ رہتے تھے وہاں کی زبان اور معاشرت اختیار کی اور پھر یہ کتاب لکھی۔
آج کل اپنی بیوی کے ہمراہ ایشیا اور مشرق بعید کا دورہ کر رہے تھے پاکستانیوں خصوصا پشاور کے لوگوں کے خلوص کے بہت مداح تھے ہم نے سنتروں کی خریداری میں ان کی بیوی کی مدد کی کابل میں ہم نے ایک افغانی دوست سے کہا کہ وہ ہمیں یہاں کے کسی پبلشر سے ملوا دے انہوں نے بتایا کہ یہاں کوئی پبلشر ہی نہیں ہے اگر کوئی کتاب چھپنی ہوتی تو وہ سرکاری پریسوں میں چھپ سکتی ہے وہ بھی حکومت کی اجازت اور منظوری کے بعد کتاب کی اشاعت کے بعد اس کی تقسیم کی ذمہ داری مصنف یا مؤلف کی ہوتی ہے۔
اس لئے کتاب فروشوں کی ضرورت نہیں پڑتی ریلوے کا بھی کچھ یہی حال معلوم ہوا کابل کے بادشاہ امان اللہ خان نے اپنے زمانے میں ایک نئی بستی دارالامان کے نام سے بنائی تھی وہاں تک ا س نے ریلوے لائن بچھائی تھی لیکن بچہ سقہ ا قتدار پر قابض ہوا تو اس نے اسے انگریزوں کی بدعت قرار دے کرسب مار اکھا ڈ ڈالا ریلوےکی کچھ بچی کھچی نشانیاں ابھی بھی وہاں مل جاتی ہیں دریائے کابل شہر کے بیچوں بیچ بہتا ہے دریا کہنا دریا کی توہین ہے اس سے بہتر تو کراچی کا گندہ نالہ ہے دریا کے پانی سے کپڑے دھوتے ہیں اس میں کوڈ ا کرکٹ بھی پھینکتے ہیں اور پینے کے لیے بھی اس کا پانی استعمال کرتے ہیں شہر میں کہیں ہینڈ پمپ بھی لگے ہیں لیکن اب حکومت پائپوں کے ذریعے پانی گھر تک پہنچانے کا بندوبست کر رہی ہے فی الحال شہر میں سقوں کا راج ہے
No comments:
Post a Comment