ڈاکٹر زیدی کی عمر پچپن سال کے لگ بک تھی ۔ ببیمارپڑ گئے تو ان کی بیگم نے ان کی تیمارداری میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی ۔ وہ ہر وقت اپنے شوہر کے کمرے میں موجود رہتیں ۔ ڈاکٹر صاحب کا علاج ایک نوجوان ڈاکٹر برہان کر رہے تھے ۔ سردیوں کا موسم تھا اور رات کا وقت ۔ باہر بڑی تند و تیز ہوا چل رہی
تھی ۔ بیگم زیدی اپنے شوہر کے پاس آرام دہ کرسی پر بیٹھی کسی رسالے کا مطالعہ کر رہی تھیں کہ ڈاکٹرصاحب نے دھیمی سی آواز میں کچھ کہا جسے بیگم صاحبہ سن نہ پائیں لیکن جب وہ اپنے جسم سے کمبل ہٹانے لگے تو بیگم
کے پوچھنے پر انہوں نے کہا کہ باہر کوئی دروازہ کھٹارہا ہے ۔ بیگم نے جواب دیا کہ مجھے تو کوئی دستک
سنائی نہیں دی ۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ اگر تم جانانہی چاہتی تو میں خودھی چلا جاتا ہوں ۔ بیگم صاحبہ نے
ڈاکٹر کو یقین دلانے کی کوشش کی کہ دروازے پر کوئی نہیں ہے ، صرف تند و تیز ہوا کا شور ہے جسے آپ
دستک خیال کر رہے ہیں لیکن ڈاکٹر بھی اپنی بیوی کے جواب سے مطمئن نہ ہوئے اور اپنی بات پر اصرار
کرتے رہے ۔ بیوی نے انہیں سمجھایا کہ دروازے پر کوئی دستک نہیں دے رہا ۔ یہ محض آپ کا وہم ہے ۔
اسی دوران میں دروازے گھنٹی ہوئی بیگم زیدی نے جا کر دیکھا تو ڈاکٹر برہان تھے ۔ ڈاکٹر
برہان نے ڈاکٹر زیدی کی کیفیت کے بارے میں سن کر کہا کہ ان کی حالت اب تسلی بخش لگتی ہے اس لئے
انجیکشن میں اب ناغہ کر دینا چاہئے ۔ بیگم زیدی نے ڈاکٹر برہان سے اپنے شوہر کے اس وہم کا ذکر کیا کہ
کس طرح وہ ہر وقت کہتے ہیں کہ با ہر دروازے پرکوئی دستک دے رہا ہے حالانکہ دستک دینے والا کوئی
بھی نہیں ہوتا ۔
ڈاکٹر برہان کے استفسار پرڈاکٹر زیدی نے اپنی جوانی کے زمانے کا ایک واقعہ سنایا کہ اٹھاره
سال قبل میری پریکٹس خوب چلتی تھی ۔ ڈسپنسری میں بھی اور گھر بھی اکثر مریضوں کے بھیڑلگی رہتی
تھی اور سر کھجانے کی بھی فرصت نہیں تھی ۔ ایک رات میں دیر سے تھکا ہارا اپنے گھر لوٹا تو آتے ہی بستر پر گر پڑا ۔ کچھ دیر بعد میرے نوکر نے مجھے آ کر بتایا باہرکوئی بڑے میاں آئے ہیں اور
مریض کو دکھانے کے لئے آپ کو گھر لے جانا چاہتے ہیں ۔ ڈاکٹر زیدی نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے
ڈاکٹر برہان کو بتایا کہ میں دن بھر کی تھکاوٹ سے چور تھا ۔ گرم گرم بستر چھوڑنا میرے لئے مشکل ہورہا
تھا ۔ اس لئے میں نے اپنے نوکر سے کہا کہ وہ بوڑھے کو واپس ںبھیج دے . لیکن نو کر کے روکنے کے باوجود
بوڑھا میرے کمرے میں آ گیا ارمنت سماجت کرنے لگا کہ میرا بیٹا سخت بیمار ہے ۔ اسے پہلےبھی آپ کی
دوا سے شفا ھوئی تھی اس لئے مہربانی کر کے آپ اسے چل کر دیکھ لیں لیکن میں نے ان سے انکار کردیا
اور میرے ملازم نے اسے زبردتی باہرنکال دیا ۔ نہ جانے کب تک دروازے پر دستک دیتارہالیکن
میں سو گیا ۔ صبح اٹھا تو رات کے واقعہ پر مجھے بے حد ندامت ہورہی تھی ۔ میرا ضمیر بیدار ہو چکا تھا اور میں
رات والے رویے پر لعنت ملامت کر رہا تھا ۔
ڈاکٹر برہان نے ڈاکٹر زیدی کا واقع سناتو کہاڈاکٹر صاحب یہ آپ کا ضمیر ہے جواب کبھی
کبھی آپ کے دروازے پر دستک دیتا رہتا ہے ۔ آپ اپنے اس واقعے میں اتنی بات کا اور اضافہ کر
کہ میں اسی بڑے میاں کا پوتا ہوں جس کا بیٹا اسی راستے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر رہا تھا ۔ اب آپ کو
اطمینان سے سوجانا چاہے اور اب آپ کے دروازے پر دستک نہیں ہو گی ۔
No comments:
Post a Comment