You can explore Urdu stories,Urdu poetry,Ahadees, Urdu Afsanay, Urdu Grammer and all other intresting topics regarding urdu.

Monday, August 28

The story of Zamzam water well.


 آج سے ہزاروں سال پہلے کی بات ہے کہ جہاں آج کل مسلمانوں کا مقدس شہر مکہ واقع ہے وہاں ریت، بے آب و گیاہ پہاڑ اور خشک پہاڑیوں کے سوا کچھ نہ تھا۔ دوردور تک کسی جاندار کانام ونشان تک نہ ملتا تھا۔ اس زمانے میں اللہ تعالی کے خلیل پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی بیوی حضرت ہاجرہ اور اپنے ننھے منھے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو لے کر یہاں آئے اور اللہ تعلی کے حکم کے مطابق انہیں یہاں چھوڑ کر چلے گئے۔ ماں اپنے ننھے شیر خوار بچے کو لے کر ایک پہاڑی کی اوٹ میں بیٹھ گئی۔ سورج بلند ہوتا گیا۔ دھوپ کی تیزی اور شدت بڑھتی گئی۔ زمین گرم ہوتی گئی۔

پانی کی چھاگل میں پانی کم ہونے لگ اور کچھ وقت میں پانی ختم ہو گیا۔ حضرت ہاجرہ کو پیاس محسوس ہوئی لیکن پانی کا کہیں نام ونشان تک نہ تھا۔ ماں نے جب بچے کی طرف دیکھا تو گھبرا گئی۔ پیاس سے بچے کے ہونٹ خشک تھے۔ زبان خشک تھی۔ وہ پیاس سے بلک رہا تھا۔ ماں کے ہوش اُڑ گئے۔ اُسے اپنی پیاس بھول گئی۔ بچے کی حالت زار دیکھ کر تڑپی ۔ ادھر ادھر دیکھا تو ریت کے ذروں کے سوا کچھ نظر نہ آیا۔ اوپر دیکھا تو آسمان کو دور اور خشک پایا۔ نیچے دیکھاتو زمین کو پتھر یلی  اور خشک پایا۔ اسے اپنے بچے کے لیے ایک گھونٹ پانی درکار نہ تھا۔ وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے لگیں کہ اے ابراہیم کے خدا! اس جنگل میں، اس بیاباں میں، اس ریگستان میں اس آگ کے دریا میں پانی کا چشمہ بہا۔ اے مالک ! اے ابراہیم علیہ السلام کے لیے آگ کو گزار بنانے والے خدا! میرےشیر خوار بچے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے لیے پانی عطافرما اے اللہ مجھے  پر نہیں لیکن اس ننھی جان پر کرم فرما۔ اتنے میں بچہ پیاس سے بے ہوش ہو چکا تھا کبھی کبھی ٹانگیں ہلا دیتا تھا۔ ماں نےاپنے منہ سے لعاب نکال کر بچے کے منہ میں ڈالا مگر اس سے کی پیاس کیے بجھ سکتی تھی ؟ دن کی گرمی زوروں پر تھی۔ منہ میں لعاب ڈالنے سے کچھ دیر تک بچے کی حالت ٹھیک ہو جاتی لیکن پھر وہی خشکی رگیں تک خشک کر دیتی تھی۔ آخر بچے کی حالت نہایت نازک ہو گئی۔ ماں سے اس کی حالت نہ دیکھی گئی۔ پریشانی کے عالم میں انھی، بچے کو زمین پر لٹایا، دوڑ کر صفا پہاڑی پر چڑھ گئی۔ بے تابی سے ادھر ادھر دیکھا۔ پانی کا دور دور تک نشاں نہ پا کر مروہ پہاڑی کی طرف بھاگی۔ وہاں پانی کا نشاں نہ پا کر پھر صفا پہاڑی کی طرف بھاگی۔ صفا اور مروہ کے درمیان بھاگتے ہوئے بھاگنے کے ساتھ ساتھ بچے کی طرف بھی دیکھتی جاتیں تا کہ کوئی درندہ اُسے نقصان نہ پہنچائے۔ اب ماں کی بے تابی کی کوئی حد نہ تھی۔ وہ اپنے بچے کے لیے بے تاب تھی۔ ہر طرف ایسی تاریکی چھائی ہوئی تھی۔ کبھی بچے کی طرف دیکھتی کبھی آسمان کی اول طرف نگاہ اٹھاتی مگر کہیں سے امید کی کرن نظر نہ آتی۔ اس طرح صفا اور مروہ کے درمیان دوڑتے ہوئے چھے چکر مکمل ہو گئے۔ ساتویں مرتبہ اللہ تعالی سے دعائیں کرتی ہوئی دوڑی۔ پھر بچے کے پاس واپس آئی تو دیکھا کہ بچے نے بے تابی سے روتے ہوئے زمین پر جہاں ایڈھی ماری تھی وہاں سے پانی کا

چشمہ ابل رہا تھا۔

 حضرت ہاجرہ نے اللہ تعالی کاشکر ادا کیا۔ بچے کو پانی پلا یا خود پیا۔ چٹہ کا پانی ہر طرف پھیل رہا تھا۔ حضرت ہاجرہ نے بیٹے کے گرد چھروں سے ایک حد قائم کر دی اور پانی سے فرمایا " زم زم یعنی اے پانی تو ٹہر جا۔ پانی نے حضرت ہاجرہ کی قائم کی ہوئی حد سے باہر لگانا
 باور آج تک اس مد ینےسے باہر نہیں نکلا ۔ حضرت ہاجرہ کے ان الفاظ زم زم کی نسبت سے اس پیشے کا نام " زم زم اور اس مقدس بیٹے کے مقدس پانی کا نام " آب زم زم کہلایا۔ اس چشمے کا پانی دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے شفا کا پیغام لایا۔ اس مقدس پانی کو آب شفا بھی کہتے ھیں عرب کے بعد پانی کی تلاش میں ریگستان کا چپہ چپہ چھانتے پھرتے تھے۔ وہ پانی کی تلاش کرتے کرتے جب اس پیشے پر پہنچے توان کی خوشی کی کوئی انتہانہ تھی۔ ایک بدو نے حضرت ہاجرہ سے خود پانی پینے اور اپنے اونٹوں کو پانی پلانے کی اجازت مانگی۔ آپ نے بڑی خوشی سے اس کو اجازت دے دی۔ بدو نے خود پانی پیا اور اپنے اونٹوں کو پانی پلایا۔ اس مقدس پانی نے اس پر اتنا اثر کیا کہ وہ وہیں خیمہ لگا کر بیٹھ گیا۔ پانی زوروں سے نکل ر ہا تھا اور لوگوں کو سیراب کر رہا تھا۔ صحرائی بد و شے کا نام سن کر آہستہ آہستہ آتے گئے اور اجازت پا کر چشمے کے گرد آباد ہوتے گئے۔ حتی کہ پتھروں کے مکانوں کا شہر آباد ھو گیا۔

حضرت اسماعیل جوان ہو چکے تھے ۔ حضرت ابراہیم نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت اسماعیل کے ساتھ مل کر خانہ کعبہ کی تعمیر شروع کی۔ خانہ کعبہ تعمیر ہو گیا۔ حضرت ابراہیم نے مقام ابراہیم پر کھڑے ہو کر لوگوں کو اس  کعبہ کی عظمت بتائی اور زیارت کے لیے بلایا۔ پتھروں کے مکانوں کا شہر ترقی کرتے کرتے مکہ معظمہ میں تبدیل ہو گیا۔ آب زم زم کا چشمہ آج بھی اسی آب و تاب سے موجود ہے۔ اور پوری دنیا کے مسلمانوں کے لیے آب شفا کا کام سرانجام دے رہا ہے ۔ سعودی حکمرانوں نے پانچوں کے ذریعے اس مقدس چشمے کے مقدس پانی کو اپنی حدوں میں لے جانے کی کوشش کی لیکن حضرت ہاجرہ کی قائم کی ہوئی حد سے باہر پانی نہ نکلا۔ اب اوپر سے اس چشمے کو ڈھانپ دیا گیا ہے۔ ام الحب ولیوں کے ذریعے اس کے پانی کو نکال کر پورے حرم، پورے مکہ شہر کے لوگوں کو پانی فراہم کیا جاتاہے۔ پوری دنیا کے لاکھوں کروڑوں مسلمان حج اور عمرہ کے لیے آتے ہیں۔ خود بھی اس آب شفا سے فیض یاب ہوتے ھیں اور کینوں میں بھر بھر کر یہ پانی برکت کیلئے اپنے گھروں کو بھی لے جاتے ہیں۔ حضرت اسماعیل کی ایڑی لگنے سے نکلنے والا چشمہ زم زم دنیا کے مسلمانوں کوفیض پہنچا رہاہے اور تا ابد پہنچا تا ہے گا۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages