You can explore Urdu stories,Urdu poetry,Ahadees, Urdu Afsanay, Urdu Grammer and all other intresting topics regarding urdu.

Friday, March 19

Munaqbe Hazrat Umer Bin Abdul Aziz sabaq khulasa 12 class urdu by Alama Shibli Numani.

 


حضرت عمر بن عبدالعزیز کی زندگی کے حالات و واقعات میں سب سے اہم اور قابل توجہ بات ان کا غیر مذہب والوں سے سلوک ہے ۔ اس سلسلے میں آپ اسلام کا ہو بہوعکس تھے ۔ اسلام نےغیرمذہب والوں سے جیسا طرز گل اپنانے کو کہا ہے ویسا ھی ان سے آپ کا سلوک تھا ۔ ایک دفعہ حمص کے ایک عیسائی نے ان کے پاس شکایت کی کہ خلیفہ ولید بن عبدالملک کے بیٹے عباس نے میری زمین پر

 زبردستی قبضہ کر رکھا ہے ۔ قرآن کی رو سے میرا فیصلہ کیجئے۔ اگر چہ عباس کے پاس اس زمین کی ملکیت کا تحریری ثبوت موجورتھا

 لیکن عمر بن عبد العزیز نے یہ کہہ کر کہ خدا کی تحریر تیرے باپ کی تحریر پر مقدم ہے ۔

 زمین عیسائی کو دلوادی ۔

 بنو امیہ کے جتنے حکمران بھی حضرت عمر بن عبدالعزیز سے پہلے گزر چکے تھے ، انہوں نے ملک میں زمینوں کا ایک بڑاحصہ عوام سے لے کر اپنے خاندان کے لوگوں کو جاگیر کی صورت میں بخش دیا تھا ۔

 حضرت عمر بن عبدالعزیز نے تخت پر بیٹھتے ہی سب سے پہلے زمینیں ان کے اصل مالکوں کو واپس کرنے کا ارادہ کیا ۔ تمام خاندان والوں نے اس کی مخالفت کی ۔ ڈر تھا کہ کہیں یہ لوگ بغاوت نہ کردیں لیکن عمر

 بن عبد العزیز اپنے فیصلے پر قائم رہے حتی کہ کچھ جاگیریں جو آپ کے اپنے قبضے میں تھیں ، وہ بھی واپس کرنے کا حکم دے دیا ۔ آپ کے ایک چہیتے غلام نے اس اقدام پر آپ کو اپنے بال بچوں کا احساس دلانے کی کوشش کی کہ ان کا گزر کیوں کر ہوگا لیکن آپ کا جواب تھا کہ ان کامالک خدا ہے چنانچہ آپ نےمسجد کے منبر پر کھڑے ہو کر اپنے خاندان کی زمینیں لوگوں کو واپس کردیں اور ان کی ملکیت کی سند یں قینچی سے کتر کتر کر ضائع کردیں ۔

 خاندان بنوامیہ کے اعمال نامے میں سب سے زیادہ تباہ کن اور قوم کو برباد کر دینے والا وہم تھا جو اس خاندان کے پانچویں  خلیفہ ظفر عبد الملک نے تخت پر بیٹھتے ہی صادر فرمایا تھا کہ کسی شخص کو میری کسی بات پراعتراض کی اجازت نہیں ہوگی اور جو شخص ایساکرے گاسزاپائے گا ۔ اگر چہ اس کے باوجودبعض حق گواور آزادی پسند عربوں کی زبانیں بند نہ کی جاسکیں لیکن اس حکم سے بڑافرق پڑا ۔ حضرت عمر بن عبد العزیز نے اس برائی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا بلکہ دو نہایت دیانتدار اور راستباز اشخاص کو مقرر کیا کہ عدالت میں جب وہ انصاف کر رھے ھوں تو وہ ان کے پاس موجودرہیں اورغلطی  پرفوراٹوک دیں ۔ 

 چنانچہ ان کے اس طرز عمل سے لوگوں کو اس قدر جرات ھو گئی تھی کہ وہ نہایت بےباکی اپ کے قول وفعل پر اپنی بے لاگ رائے کا اظہار کر دیا کرتے تھے۔

  مسلم بن عبدالملک خاندان بنوامیہ کا دست راست اور اس کی قوت وطاقت کی علامت خیال کیا جاتا تھا ۔ اس نے ایک گرجا گھر کے  منتظمین کے خلاف دعوی دائر کردیاعدالت میں گرجا گھر کے منتظم جوعیسائی تھے ،قاعدے کے مطابق کھڑے تھے لیکن مسلم حکعمران خاندان کا  فرد ہونے کی حیثیت سے غرور وتکبر میں بیٹھ کر گفتگوکرتا تھا عمر بن عبد العزیز نے صرف اسے عیسائیوں کے برابر کھڑا کیابلکہ مقدمے کا فیصلہ بھی سنا دیا۔

 عمر بن عبدالعزیز کی حکومت مساوات اور جمہوریت کے اس سنہری اصول پر قائم تھی کہ تمام لوگ یکساں حقوق رکھتے ہیں ۔ یہاں تک کہ بادشاہ کو بھی کسی پربرتری حاصل نہیں ۔ عمر بن عبدالعزیز اس اصول کا اطلاق صرف ملکی امور پر نہیں بلکہ اپنے رہن سہن اور اپنی ذاتی زندگی پربھی کرتے تھے ۔ وہ خود ایک درہم دے کر اسی لنگر خانے سےکھانا کھاتے تھے جو کہ عام مسلمانوں کے لئے تھا ۔ جب انتقال کاوقت قریب آیا تو مسلم بن عبدالملک نے کہا کہ وصیت کر دی جائے ۔ فرمایا کہ میرے پاس ہے ہی کیا ، جس

 کی وصیت کروں۔

حالانکہ بنوامیہ کے دوسرے خلفا کی دولت مندی اور اس کا حال تھا کہ ہشام بن عبدالملک کے ترکے میں سے اس کے بیٹوں کو نقد رقم جو وراثت ملی تھی وہ ایک کروڑ دس لاکھ دینار تھی۔

 لیکن عمر بن عبدالعزیز نے صرف سترہ دینار چھوڑے ، جن میں سے سات ان کے کفن دفن پرخرچ ہو گئے ۔ اور باقی دیناران کہ ورثا میں تقسیم ہوئے ۔ غرضیکہ ان کی حکومت اسلامی اصولوں کا نمونہ تھی۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages