آسمان پر بہت سے شعرا کی کہکشاں بھی ہوئی ہے جن میں میر تقی میر، خواجہ میر درد، مومن خان مومن شامل ھیں ان سب کا پیار اپنی جگہ لیکن مجھے علامہ اقبال جیسا درخشاں ستارا کوئی نظر نہیں آتا۔ بلکہ میں اگر یہ کہوں کہ علامہ اقبال آسمان ادب کا روشن چاند ہیں تو ہے خواب نظیر اکبر آبادی، میرانیس ، مولانا الطاف حسین حالی، اکبرالہ آبادی اور ظفر علی خاں جیسے روشن ستارے چمک رہے ہیں۔ مگرعلامہ اقبال جیسا منظر جلسفی اور حکیم الامت شاعر ڈھونڈ نے سے نہیں ملے گا۔ عرصہ دراز کی بات ہے کہ کشمیر میں ہندوؤں کے ظلم وستم نے مسمانوں کا جینا حرام کر رکھا تھا کہ مہاجر مسلمانوں میں ایک خاندان سیالکوٹ میں آباد ہوا اور یہیں کا ہور ہا۔ اس خاندان کے ایک ر کن کا نام نورمحمد تھاجو سیالکوٹ میں ٹوپیوں کی دُکان چلاتے تھے۔ وہ بہت نیک طبیعت اور خدا پرس انسان تھے۔ علامہ اقبال کی پیدائش سے پہلے انہوں نے خواب میں دیکھا کہ آسمان سے ایک نورانی ستارہ ٹوٹ کر انکی گود میں اگرا ہے ۔ یہ نورانی ستارہ نومبر18 57 میں ا قبال کی صورت میں ان کے گھر پیدا ہوا۔ ماں باپ نے خوشی منائی اور اس ہونہار بچے کا نا محمد اقبال رکھا۔ آپ کی والدہ بھی بہت نیک خاتون تھیں وقت گزرتا گیا، بچہ بڑا ہوتا گیا۔ جب ذرا سمجھ دار ہو گیا تو ایک مکتب میں پڑھنے کے لیے بھیج دیا گیا۔ اس کے بعد مشن ہائی سکول بھیج دیا۔ بچہ بڑاذہین اور ہونہار تھا۔ اس نے پرائمری میں وظیفہ حاصل کیا اور پھر دلی میں بھی یہ اعزاز حاصل کیا ۔ مشن ہائی سکول سے میٹرک پاس کرنے کے بعد مرے کالج سیالکوٹ میں داخلہ لیا۔ یہاں میر حسن جیسا شفیق استاد ملاجس نے علامہ اقبال میں عربی، فارسی اور سلامی تعلیم کا شوق پیدا کیا۔ ایف اے پاس کرنے کے بعد آپ نے گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفہ میں ایم اے کیا۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں علامہ اقبال پروفیسر ا ین آرنلڈ جسے استاد سے ایم۔ اے کرنے کے بعد کچھ عرصہ گورنمنٹ کالج لاہور کالج میں بطور پروفیسر رھے۔ 1980ء میں کے یورپ کے سفر پر نکلے ۔ پہلے پہل آپ بیرسٹری کرنے کے لیے لندن گئےاور کیمبرج یونیورٹ سے بارایٹ لاء کی ڈگری حاصل کی۔ پھر پی۔ ایچ
ڈی کرنے کے لیے جرمنی کی یونیورسٹی میں چلے گئے۔ وہاں سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر کے ڈاکٹرمحمداقبال بن کر وطن واپس آئے۔ اس بے وطنی اور یورپ کی بے راہ روی نے اقبال کے دل میں اسلام کی بھی حد محبت پیدا کی۔ علامہ اقبال کو بچپن ہی سے شعر و شاعری سے محبت تھی ۔ آپ نے طالب علمی کے دور سے ہی شعر کہنے شروع کر دیے تھے۔ ساتویں جماعت سے شعر کہنے شروع کر دیے تھے۔
وہ مسلمانوں کے زوال پر بہت غمناک تھے ۔ انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے مسلمانوں کو جگانے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے مسلمانوں کو اپنا شاندار ماضی یاد دلایا۔ ۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں۔
اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تو نے وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوش محبت میں کچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاج سردارا غرض میں کیا کہوں تجھ سے کہ وہ صحرائیں کیا تھے جہانگیر و جہاں و جہاں بانو جہاں آرا
وہ مسلم نو جوانوں کو خواب غفلت سے جگانا اور اسلام کی آن پر کٹ مرنا سکھانا چاہتے تھے۔ چنانچہ آپ نے 1930ء میں اپنے مشہور تاریخی مقام پر خطبہ الہ آباد میں پاکستان کا تخیل پیش کر کے نوجوانوں کے دلوں میں آگ لگادی۔ انہوں نے قائد اعظم کو ولایت سے بلا کر مسلمانوں کا لیڈر بنا دیا۔ علامہ اقبال جانتے تھے کہ محمد علی جناح ایک ایسا لیڈر ہے جسے خریدا نھیں جا سکتا ۔ چنانچہ علامہ اقبال کی رہنمائی اور قائد اعظم کی شبانہ روز محنت سے 14 اگست 1947 کو پاکستان معرض وجود میں آگیا اور پاکستان کا چاند دنیاکے نقشے پر طلوع ہوگیا۔ انگر یزحکومت نے اقبال کو سر کا خطاب دے رکھا تھا۔
انگریزی حکومت کو اپنی شاعری کے ذریعے ہلا کر رکھ دیا۔ انگریز کا سر اس درویش کے سامنے عاجز آ گیا۔ علامہ اقبال نے اردو اور فارسی زبان میں شاعری کی۔ انہوں نے اپنی شاعری میں اس قدر بلند خیالات کا اظہار کیا ہے کہ ایران اور دنیا بھر کے شعرا اور فلاسفر نے موجودہ زمانے کو عصر اقبال کہہ کر عقیدت کے پھول نچھاور کیے۔ اقبال کو عموما نو جوانوں کا شاعر کہا جاتا ہے۔ یوں تو انا انہوں نے مسلمان نو جوانوں کے احساس خود داری کو بیدار کیا۔ انہوں نے مسلمان نو جوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔ اقبال نے دنیا بھر کےمسلمانوں کومخاطب کر کے شعر لکھے لیکن انہوں نے زیادہ تر سلمان نوجوانوں کو امیدوں، آرزوؤں اور امنگو کا پیغام دیا۔
کیا تمنا آبرو کی ہے اگر گزار ہستی میں
تو کانٹوں میں الجھ کر زندگی کرنے کی خو کرے
نہیں یہ شان خود داری چمن سے توڑ کر
تجھ کو کوئی دستار میں رکھ لے
کوئی زیب گلو کرے
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں
مسلمان نوجوانوں کو خودی کا درس دیتے ہوئے علامہ اقبال فرماتے ہیں
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے خدا بندے سے
خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
خراج کی بھیک کی جو ہو تی آج وہ سکندری کیا ہے
خودی کی ہو جس میں موت وہ سروری کیا ہے
علامہ اقبال کی دعا ئیں اور نیک تمنائیں نوجوانوں کے لیے ہیں۔ وہ کہتے ہیں:
جوانوں کو میری آہ سحر دے پھر ان شاہین بچوں کو بال و پر دے خدایا آرزو میری یہی ہے مرا نور بصیرت عام کر فرد کو غلامی سے آزاد کر جوانوں کو پیروں کا اُستاد کر
اقبال کا تصور عشق سمجھنے کے لیے ان کی شاعری ہی سے مدد لی جاسکتی ہے۔ علامہ اقبال ڈاکٹر نکلسن کے نام ایک خط میں عشق کا معلوم یوں پیش کرتے ہیں یہ لفظ نہایت وسیع منوں میں استعمال ہوا ہے۔
جب علامہ اقبال یورپ سے واپس آئے تو ملت اسلامیہ کو خواب غفلت سے جگانے کا ارادہ اپنے ساتھ لے کر آئے۔علامہ اقبال موجودہ دور کے اسلامی ماہرین تعلیم کو ز سر نو پیروی کی دعوت دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
رہ گئی رسم اذا روح بلالی نہ رہی
رہ گیا فلسفہ تلقین غزالی نہ رہی
اردو شاعری میں بانگ درا، بال جبریل، ضرب کلیم، ارمغان حجاز اقبال کے مشہور شعری مجموعے ہیں جب کہ فارسی شاعری میں پیام مشرق، زبور عجم، مثنوی اسرار ورموز ، جاوید نامہ اور ارمغان حجاز کا کچھ حصہ شامل ہیں۔
افسوس ہے کہ اقبال نے جو شمع جلائی تھی خود اس کی روشنی سے مستفید نہ ہو سکے اور اکیس اپریل 1938ء کو راہ روئے عالم سے چلےگئے ۔ بادشاہی مسجد کے صدر دروازے کے باہر آپ کا مقبرہ زیارت گاہ ہے۔ انھوں نے خود فر مایا تھا
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پید ا
No comments:
Post a Comment