You can explore Urdu stories,Urdu poetry,Ahadees, Urdu Afsanay, Urdu Grammer and all other intresting topics regarding urdu.

Wednesday, August 30

Eid-ul_Adha/Badhi Eid in urdu Essay.

 عيد الاضحى


اس عید کو عید قربان بھی کہتے ہیں ۔ یہ دوسرا بڑا اسلامی تہوار ہے جو ہر سال اسلامی مہینے ذلحج کی دس تاریخ کو منایا جاتا ہے، اسے عید ینی یا عدالت بھی کہا جاتا ہے عید الاضی کے لغوی معنی ہیں " قربانی کی عید کیونکہ اس روز حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی قربانی کی یاد تازہ کرنے کے لیے جانور ذبح کیے جاتے اس لیے قربانی کو بقرعید بھی کہتے ہیں۔ حضرت ابراہیم اللہ تعالی کے بہت پیارے نبی تھے ۔ ایک رات خواب میں انہیں اللہ تعالی کی طرف سے کوئی پیاری چیز قربان کرنے کا حکم ہوا۔ آپ نے صبح اٹھ کر سواونٹ قربان کر دیے۔ اس دور میں اونٹ مال و دولت میں شمارہوتے تھے اور بہت قیمتی تصور کیے جاتے تھے ۔ دوسری رات پھر قربانی کا حکم ہوا۔ آپ نے صبح اٹھ کر پھر سواونٹ اللہ کی راہ میں قربان کر دیے۔

تیسری رات کو سب سے پیاری چیز کی قربانی کا حکم ہوا۔ یہ اشارہ حضرت اسماعیل کی طرف تھا۔ چونکہ اسماعیل حضرت ابراہیم کے اکلوتےبیٹے تھے۔ حضرت ابراہیم کافی غور وخوض کے بعد اس نتیجے پر پہنچے اور لخت جگر حضرت اسماعیل سے بڑھ کر مجھے کیا چیز پیاری ہوسکتی ہے؟ چنانچہ انھوں نےحضرت اسماعیل کو اپنا خواب بتایا۔ فرمانبردار بیٹے نے فورا جواب دیا کہ آپ اللہ تعالی کے حکم کی تعمیل میں تاخیر نہ کریں۔ انشا اللہ آپ مجھے اس امتحان میں ثابت قدم پائیں گے ۔  

حضرت ابراہیم نے اپنی بیوی حضرت ہاجرہ سے کہا کہ وہ بیٹے کو نہلا کر اسے صاف ستھرے کپڑے پہنائے ۔ شیطان نے حضرت ہاجرہ کے دل میں بہت وسوسے ڈالنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکا۔ حضرت ابراہیم اپنے بیٹے کو ساتھ لے کر جنگل کی طرف روانہ ہوئے ۔ چھری  آپ کے ساتھ تھی۔ شیطان نے حضرت اسماعیل کے دل میں وسوسے ڈالنے شروع کیے لیکن ان کے پائے استقلال میں لغزش نہ آنے پائی۔ حضرت اسماعیل نے اپنے باپ حضرت ابراہیم سے عرض کیا کہ آپ میری اور اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ لیجئے تا کہ شفقت پدری آپ کے فریضے کی ادائیگی میں حائل نہ ہونے پائے اور چھری کو دیکھ کر میرے پائے استقلال میں لغزش نہ آنے پائے۔ حضرت ابراہیم نے ایسا ہی کیا لیکن للہ تعالی کو اپنے پیارے پیغمبر کا صرف امتحان مقصود تھا۔ وہ قطعا حضرت اسماعیل کی قربانی نہیں چاہتا تھا۔

  جب حضرت ابراہیم نےاپنے بیٹے کے گلے پر چھری چلائی تو اللہ تعالی کے حکم سے حضرت جبرائیل نے بہشت سے دنبہ لا کر حضرت اسماعیل کی جگہ چھری کے نیچے دے دیا اور حضرت اسماعیل کو بچالیا۔ حضرت اسماعیل کو کچھ بھی نہ ہوا۔

 جب حضرت ابراہیم نے آنکھوں سے پٹی اُتاری تو دیکھا کہ حضرت اسماعیل ایک طرف کھڑے مسکرارہے تھےاور ان کی جگہ ایک دنبہ ذبہ ہو اپڑا تھا۔ اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم سے فرمایا آپ نے اپنا خواب کر کے دکھا دیا۔ اس کے بدلے ہم نے آپ کو دی قربانی عطا کی ۔ بڑی قربانی سے مراد یہی قربانی ہے جو ہر سال ذلحج کوادا کی جاتی ہے۔ 

یہی وجہ ہے کہ اس عظیم قربانی کی یاد تازہ کرنے کیلئے عید الالعضحی کے موقع پر قربانی دینا مسلمانوں کے لیے سنت ابراہیمی قرار دے دیا گیا۔ اس لیے اس عید کو عید قربان بھی کہاجاتاہے چنانچہ اس حکم کی تعمیل میں لاکھوں فرزندان توحید ہر سال عید سے ایک روز پہلے مکہ مکرمہ میں حج ادا کرتے ہیں اور عید کے روزریان پیش کرتے ہیں۔ 

مکہ مکرمہ کے علاوہ پوری دنیا کے مسلمان اس روز اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی حیثیت کے مطابق بھیڑ، بکری، گائے بھینس اور ان اسلامی شریعت کی رو سے سب سے افضل قربانی دیتے ھیں۔

 کیونکہ حضرت اسماعیل کی جگہ دنبہ قربان ہواتھا۔ اون کی گائے بھیڑ کی قربانی بھی جائز ہے۔ گائے، بیل اور اونٹ کی قربانی سات افرادمل کر دے سکتے ہیں۔ قربانی کی یہ تقریب دس ذوالج کو شروع ہوتی ہے اور بارہ ذواج تک جاری رہتی ہے۔ اللہ تعالی کے حکم کے مطابق قربانی کے گوشت کے تین حصے کیے جاتے ہیں۔ ایک حصہ قربانی کرنے والےکااوذ دوسرا غریبوں کا گوشت میں   حصہ رکھاجا تا ھے تاکہ وہ بھی امیروں کے ساتھ عید مناسکیں ۔ ایک حصہ غریب رشتہ داروں کیلئے اور تیرا حصہ مساکین کے لیے ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے غریبوں کو بھی قربانی سے محروم نہیں رکھا۔ قربانی اللہ تعالیٰ کی ذات اپنے بندوں پر  مہربان ہے۔ عید الفطر کے موقع پر صدقہ فطر کے ذریعے غریبوں کو عید منانے اور قربانی کی عید پر قربانی کے گوشت میں ان کا حصہ مقرر کر کے ان کو عید منانے کا موقع فراہم کیا۔ اس طرح امیر غریب سب اس عید کی خوشیوں میں شریک ہوتے اور حقوق العباد دونوں ادا ہوتے ہیں۔ در اصل قربانی تقوی ہے۔ 

جانوروں کا گوشت اور خون ہر گز نہیں پہنچتا بلکہ اس کو تمہاری طرف سے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔“ 

عید الاضحیٰ کا تہوار ہمیں اطاعت خداوندی کا درس دیتا ہے۔ اس عمل کے ذریعے ہمارے اندر ایثاروقربانی کا جذبہ پیدا ہوا ہے۔ قربانی کا گوشت عزیزوں ، رشتہ داروں اور مسکینوں میں تقسیم کرنے سے خدا کی خوشنودی کے ساتھ ساتھ ضرورت مندوں اور عزیزوں کے حقوق ادا ہوتے ہیں اور ان کے دلوں میں محبت و احترام پیدا ہوتا ہے۔ 

یوں حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق لعباد بھی اداہوتے ہیں۔ لیکن اس کہ قربانی کی اصل روح کو بھلا دیا گیا ہے اللہ تعالی کی رضا اور خوشنودی کی بجائے دکھاوے کیلیے قربانی دا کی جاتی ہے۔ گویا قربانی اب صرف او صرف نمائش بن کر رہ گئی ہے۔ جو لوگ دکھاوئے کیلئے قربانی کرتے ہیں ان کو کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی رضا وخوشنودی کے لیے اللہ تعالی کے حکم کے مطابق خلوص دل سے قربانی کرتے ہیں ان کو اتنا کچھ حاصل ہوتا ہے کہ اس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ اس قربانی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے علاوہ ایک دوسرے کے لیے قربانی اور خلوص کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ وہ بھی صرف وقتی طور پر نہیں بلکہ سال کے باقی حصوں میں بھی ایک دوسرے کے لیے اس قربانی ، ایثار اور خلوص کا مظاہرہ ہونا چاہیے۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages