یوم آزادی کا مطلب ہے وہ دن جس دن ہم نے آزادی حاصل کی۔ ہم نے 14 اگست 1947ء کو آزادی حاصل کی اگست ہمارا یوم آزادی ہے۔ اس دن کو اہل وطن بڑے جوش وخروش سے مناتے ہیں۔ دن پیار اور اخوت کا درس دیتا ہے۔
یہ دن ہمیں ہمارے مسلمان بھائیوں کی ان قربانیوں کی یاد دلاتا ہے جو انہوں نے پاکستان کے حصول کے لیے دی تھیں۔ 14 اگست ہمارے لیے بہت بڑے دن کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ یہ ہمارا قومی دن ہے۔ اس دن اللہ تعالیٰ نے ہمیں آزادی جیسی نعمت سے نوازاتھا۔ اگست کا مہینہ شروع ہوتے ہی جشن آزادی کی تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں۔ سال بھر کے انتظار کی گھڑیاں ختم ہو جاتی ہیں۔ جوں جوں 14 اگست کا دن قریب آتا جاتا ہے لوگوں کے دلوں میں یوم آزادی منانے کا جذبہ زیادہ ہو جاتا ہے۔ آخر کار 14 اگست کا دن آجاتا ہے۔ اس ان کے آتے ہی شہر شہر، گاؤں گاؤں محلہ محلہ مسرت و شادمانی کے نغموں سے گونج اٹھتے ہیں۔ جلسے منعقد ہوتے ہیں۔ ان میں تقریریں ہوتی ہیں۔ تحریک آزادی کے روشن پہلوؤں پر تقریریں ہوتی ہیں۔ ہر طرف پاکستان زندہ باد کے نعروں سے فضا گونج اٹھتی ہے۔ جلوس نکالے جاتے ہیں ۔
اس دن ہاتھی گھوڑے، اور اونٹ جلوسوں کی زینت بنتے ہیں ۔ اس دن ریڈیو اور ٹی وی پر خصوصی پروگرام پیش کیے جاتے ہیں۔ اس دن کھیلوں کے خصوصی مقابلے کرائے جاتے ہیں۔ ہر چھوٹا بڑا مرد عورت، بچہ بوڑھا مسرور، شادماں اور خوش و خرم نظر آتا ہے۔ زندہ قوموں کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ اپنے قومی ہیرو کوخراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ان کےنام سے آزدی کے دن کوشایان شان طریقے سےمنانا چاھیے۔ ہم بھی ایک زندہ قوم ہیں۔ ہم بھی اپنا یوم آزدی شایان شان طریقے سے مناتے ہیں۔ اس دن ہر پاکستانی کے دل میں ایک نیا جذبہ اور جوش ہوتا ہے۔ ہر دل جشن آزادی کی خوشی سے لبریز ہوتا ہے۔ ہرطرف گھروں اور گلی کوچوں میں سبز ہلالی پرچم لہراتا ہوا نظر آتاہے۔ خوش الحان پرندے بھی آزادی سے ادھر ادھر اڑتے ہوئے خوشی کے گیت گاتے پھرتے ہیں۔ 14 اگست کے سورج کی ایک ایک کرن میں آزادی کا نو دکھائی دیتا ہے۔ آج کے دن پاکستان کے دریا گواہی دیتے ہیں کہ ان میں آزادی چاہنے والوں کا خون شامل ہے اور وہ درخت گواہی دیتے ہیں جن کی چھاؤں میں قافلوں نے پناہ لی تھی ۔ آسمان گواہی دیتا ہے کہ محلات میں رہنے والے اور کم خواب کے بستروں پر سونے والے کتنے لوگوں کوتحریک آزادی کے دوران فٹ پاتھوں پر سونا پڑا۔ اس دن ٹریکٹر ٹرالیوں، موٹر سائیکلوں ، کاروں اور بسوں پر جلوس نکالے جاتے ہیں۔ قیام پاکستان کی کہانی بیان کی جاتی ہے۔ تحریک آزادی کے دوران پیش آنے والے دلخراش واقعات سنائے جاتے ہیں جن کو سن کر بے شمار لوگ رودیتے ہیں۔ اپنے آباؤ اجداد کی ہمت و استقلال کوخراج تحسین پیش کیا جاتا ہے۔ اخبارات خصوصی ایڈیشن نکالتے ہیں جن میں تحریک پاکستان اور قیام پاکستان کے پہلوؤں پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔
برصغیر پر مسلمانوں نے تقریباً ایک ہزار سال تک حکومت کی انگریز اس ملک میں تاجر بن کر آئے اور آہستہ آہستہ اس ملک پر ہوتے ہو گئے ۔ آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی شکست کے بعد انگریز پورے ہندوستان پر قابض ہو گئے۔ انگریزوں نے مسلمانوں سے حکومت چھینی تھی اس لیے وہ مسلمانوں کو اپنا دشمن سمجھتے تھے اور مسلمانوں کو تکلیف پہنچانے اور ذلیل ورسوا کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے۔ ہندو خوشامدی بھی مسلم دشمنی کی وجہ سے انگریزوں کے حامی بن گئے اور مسلم دشمنی کے جذبات کو ہوا دینے لگے۔ مسلمان ان دو کے درمیان پس رہے تھے ۔ انگریزوں کا حکومت پر قبضہ تھا تودفاتر پر ہند و قابض تھے۔ وہ کسی مسلمان کو کسی افسر کی پوسٹ تک پہنچنے ہی نہیں دیتے تھے۔ مسلمان دفاتر میں چوکیداری کر کے اپنا پیٹ پالتے تھے۔ دراصل ہندوؤں کا منصوبہ یہ تھا کہ وہ انگریزوں کے چلے جانے کے بعد پورے برصغیر کے حاکم بنیں کہ اسلام کا نام ہی ختم ہو جائے ۔
انگریزوں اور ہندوؤں کے گٹھ جوڑ سے مسلمانوں کی حیثیت اور حالت قابل رحم ہوگئی تھی ۔ مسلمان ان حالات سے غافل نہ تھے آخر انہوں نے 1906ء میں ہندو تنظیم کانگرس کے مقابلے میں مسلم لیگ کی بنیاد رکھی ۔ ہندوؤں نے انگریزوں کے تعاون سے مسلم لیگ کو تمام کرنے کی کوش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔ 1930ء میں مسلم لیگ کا ایک بھاری خطبہ الا الہ آباد میں منعقد ہوا جس کی صدارت حضرت علامہ اقبال نے کی۔ آپ نے اپنی صدارتی تقریر میں فرمایا کہ مسلمان اور ہندو الگ الگ دو قو میں ہیں جن میں نہ اب تک اتحاد ہوا ہے اور نہ آئندہ ہوگا۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ جن صوبوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے وہ اسلامی ریاست کے طور پر مسلمانوں کے حوالے کر دیے جائیں اور جن صوبوں میں ہندوؤں کی اکثریت ہے وہ ہندوؤں کو دے دیے جائیں۔
علامہ اقبال نے اس جذبےکو اس حد تک اُبھارا کہ مسلمان آزادی کے لیے جان تک کی بازی لگانے کے لیے تیار ہو گئے ۔ انہوں نے مسلمان قوم کو خواب غفلت سے بیدار کر کے آزادی کے لیے متحرک کر دیا
آ تجھ کو بتاؤں میں تقدیر ہم کیا ہے
شمشیر و سناں اول طاؤس و رباب آخر کے غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوق یقین پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
آخر 1940ء میں لاہور کے منٹو پارک میں قائد اعظم کی صدارت میں ہونے والے مسلم لیگ کے اجلاس میں قرارداد پاکستان منظور کی گئی اور چوہدری رحمت علی کے تجویز کردہ نام کو منظور کرلیا گیا۔ پھر تو ہر طرف پاکستان کے نعرے گونجنے لگے۔ ہر طرف نعرہ سنائی دینے لگا بن کے رہے گا پاکستان " لے کے رہیں گے پاکستان
پاکستان کا مطلب کیا لا لہ الا اللہ۔ ہندو بھر گئے اور انہوں نے اپنی اکثریت کے علاقوں میں مسلمانوں کا قتل عام شروع کر دیا۔ اس سے مسلمانوں کا جذ بہ آزاد اور بڑھ گیا اوروہ دونوں کےسامنے سینہ تان کرکھڑے ہوگئے۔
تین جون 1947ء کو دو خود مختار مملکتوں کے قیام کا اعلان کیا گیا۔ 14 اگست 1947ء کو پاکستان قائم ہو گیا۔ اس لیے 14 اگست ہماری آزادی کا دن ہے۔ زندہ قومیں ایسے ہی قومی دن کو بڑے شایان شان طریقے سے مناتی ہیں۔ ہم مسلمان بھی زندہ قوم ہیں۔ ہم بھی اپنی آزادی کے دن کو خوشی سے مناتے ہیں کیونکہ اس دن ہمیں چھینی ہوئی آزادی کی دولت واپس ملی اور پاکستان کی سلطنت معرض وجود میں آئی۔
قائد اعظم زندہ باد
پاکستان زندہ باد
No comments:
Post a Comment