قوموں کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ عظیم ہستیاں روز بروز پیدا نہیں ہوتیں۔ آسمان کو برسوں گردش کرنی پڑتی ہے۔ تاریخ کوصدیوں انتظار کرنا پڑتا ہے اور انسانیت کو نہ جانے کتنی دعاؤں کے بعد کوئی ایسی نامور ہستی ملتی ہے جو صرف عظمت کے معیار پری پوری نہیں اترتی بلکہ اسے دیکھ کر عظمت کا معیار مقرر کر نا پڑتا ہے۔ ایسی عظیم ہستیاں صرف اپنی بھلائی اور بہتری کے لیے نہیں سوچتیں بلکہ اپنی قوم اور ملک کی بہتری اور بھلائی کو اپنی زندگی کا مقصد بنالیتی ہیں اور پھر اپنی پوری زندگی اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اس مقصد عظیم کی خاطر وقف کر دیتی ہیں ۔ اس مقصد عظیم کے حصول کی خاطر اپنی جان مال تک قربان کر دیتی ہیں۔ ایسی عظیم ہستیاں قومی ہیرو کہلاتی ہیں یہ قومی ہیرو اپنی زندگی میں اپنا مقصد حاصل کرسکیں یا نہ کرسکیں لیکن اپنے عظیم مقصد کی وجہ سے اپنے مرنے کے بعد بھی وہ اپنی قوم کے دلوں میں زندہ رہتے ہیں۔ جو شمع انہوں نے روشن کی ہوتی ہے وہ آنے والے وقتوں میں قوم کے لیے مشعل راہ کا کام دیتی ہے۔ قوم ایسے لوگوں پر فخر کرتی ہے اور قوم کے نوجوان ایسے لوگوں کی زندگی سے اپنے دلوں میں جوش اور ولولہ حاصل کرتے ہیں۔ علامہ اقبال نے ایسی ہستیوں کے بارے میں فرمایا ہے:
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
میں ایک طالب علم ہوں اور فطری طور پر عظیم شخصیات کا پرستار ہوں۔ یہ عظیم شخصیات کسی بھی رنگ ونسل یا مذ ہب سے تعلق رکھتی ہوں مجھے اپنی نصابی کتب کے مطالعے سے جو تھوڑا بہت فرصت کا وقت ملتا ہے۔ میں تاریخ کی ان عظیم شخصیات کے حالات زندگی پڑھنے میں صرف کر دیتا ہوں۔ میں نے اب تک جتنے قوی ہیروز اورعظیم شخصیت کا مطالعہ کیا ہے مجھےان میں بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح سب سے زیادہ پسند ھیں۔ جسکی وجہ یہ ہے کہ عام طورپر دوسری قومیں اپنے ہیروز پیدا کرتی ہیں لیکن ہمارے قائد اعظم نے قوم کو پیدا کیا اور پھر قوم نے امام کی قیادت میں ایسا کارنامہ سرانجام دیا جس کی دنیا کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی ۔
پونجا جناح کا اصل وطن تو کا ٹھیاواڑ راجکوٹ تھا لیکن کا روباری سلسلے میں کراچی آگئے ۔ چمڑے کی تجارت کرتے تھے اور امیرتاجروں میں شمار ہوتے تھے ۔ 25 دسمبر 1876ء کو ان کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نا محمد علی رکھا گیا۔ یہی
محمدعلی بڑا ہو کر اور پڑھ لکھ کرمسلم قوم نے اُسے سر آنکھوں پر بٹھایا اور قائد اعظم کے لقب سے نوازا محمد علی نے ابتدائی تعلیم کراچی میں حاصل کی 16 سال کی عمرمیں میٹرک کا امتحان پاس کر لیا۔ آپ اعلی تعلیم کے لیے لندن روانہ ہو گئے ۔ جہاں سے بیرسٹر بن کر واپس لوٹے ۔
قائد اعظم کے والد کا کارو باران دنوں تباہی کے کنارے پرپہنچ چکا تھا۔ مقدمات اور مشکلات میں پھنس گئے تھے۔ انھوں نے ولایت سے واپسی پر سب سے پہلے اپنے والد کے مسائل کو حل کیا۔ کچھ عرصے کے لیے کراچی میں وکالت کی۔ پھر وکالت کے لیے چلے گئے۔ تین سال تک وہ سارا سارا دن بیٹھے رہتے اور پھر شام کو واپس گھر آ جاتے۔ کوئی موکل ان کے پاس نہ آتا۔ لیکن آپ نے حوصلہ نہ ہارا۔
پھر پریذیڈنسی مجسٹریٹ کے طور پر کام کیا۔ پھر اپنی پریکٹس شروع کر دی اور جلد ہی ان کا شمار چوٹی کے وکیلوں میں ہونے لگا۔ اس وقت ہندوستان میں کانگرس کی دھوم تھی۔محمد علی جناغ بھی اس میں شامل ہو گئے اور اصلاح کا شہزادہ کے لقب سے مشہور ہو گئے ۔ وہ کئی سال کانگرس کے ممبرر ہے ،مگر جب دیکھا کہ کانگرس ایک ہندو جماعت ہے جو صرف ہندوؤں کی بہتری کیلئے کوشاں ہےاور مسلمانوں سے بدلہ لینا چاہتی ہے اور ہندوستان میں صرف ہندوراج قائم کرنا چاہتی ہے ۔ تو آپ نے کانگرس کو چھوڑ دیا اور ولایت چلے گئے۔ یہ زمانہ مسلمانوں کے لیے نہایت کٹھن تھا۔ انگر یز حکمران اور دشن تھے
اگر چہ 1960ء میں مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا لیکن یہ ایک بے جان جماعت تھی۔ علامہ اقبال مسلمانوں کی بے بسی کہ حالات پر گڑ ھتے تھے۔ آخر انہوں نے دیکھا کہ یہ قوم کو کے ان حالات سے نکال سکتے ہیں۔ چنانچہ علامہ اقبال نے قائد اعظم کوخط لکھ کر اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ وطن واپس آئیں اور مسلم لیگ کی قیات سنبھالیں ۔ علامہ اقبال کے کہنے پرمحمد علی جنائح ولایت سے واپس آئے اور مسلم لیگ کی قیادت سنبھال لی۔ قوم کے بکھرے ے شیرازے کوجمع کیا۔ شہرشہر جا کرقوم کو جنجھوڑ جھنجھوڑ کر جگایا اور ایک پلیٹ فارم پر لاکھڑا کیا۔ یہ وہ وقت تھا جب مسلمان اپنی ہزار سالہ حکومت کے محروم ہو جانے کے بعد انگریزوں اور ہندوؤں کی نا انصافیوں اور ظلم وستم کا شکار تھے۔ وہ اپنے ملک میں غلامی اور ذلت کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ مسلمان اپنے مستقبل سے مایوس ہو چکے تھے۔ ایسی زوال زدہ اور منتشر قوم کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنا اور ان میں قومی شعور بیدار کر کے ان کی قومی غیرت کو جگانا قائد اعظم جیسے مخلص اور ایثار پیشہ رہنما کا ہی کام تھا۔ قائداعظم نے نظریہ پاکستان کی روشنی میں فرقوں میں بٹی ہوئی قوم کو یکجا کیا اوراسکی حقیقی منزل کا پتابتایا۔
قائداعظم نے اپنی سیاسی بصیرت و استقلال سے شاعر مشرق کے تخیل کو حقیقت کا روپ دیا۔ گاندھی نے ان کے مقابلے میں کئی پینترے بدلے مسلمانوں کوگمراہ کرنے کی کوش کی۔ کچھ عاقبت اندیش مسلمان ان کے ساتھ ہوگئے اور ہندو مسلم بھائی بھائی ، تیسری قوم کہاں سے آئی کا نعرہ بھی لگایا۔
لیکن قوم قائد اعظم کی قیادت میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند ڈ ٹ کر کھڑی ہوگئی۔ ادھر علامہ اقبال نے 1930ء میں الہ آباد میں مسلم لیگ کے سالانہ جلسے میں اپنی صدارتی تقریر میں مسلمانوں کے لیے ایک محمد دین کا تصور پیش کر دیا کہ اس تقریر پر ہندو بہت غصے ہوئے مگر مسلمانوں کو ایک نصب العین مل گیا تھا۔ ولایت کے ایک مسلمان طالب علم ا بوری رحمت علی نے مسلمانوں کے علیحدہ وطن کا نام پاکستان تجویز کیا۔ جو ہر مسلمان کی زبان کا نعرہ بن گیا۔ 23 مارچ 1940ء کومنٹو پارک لاہور مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں جو قائد اعظم کی صدارت میں منعقد ہوا، قرار داد پاکستان پاس ہوئی تو انگریز اور ہندو شدید غصہ میں اگیے۔
پاکستان کے مطالبے کی بھر پورمخالفت کی۔ قائد اعظم نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ ان کی مخالفت کا جواب دیا۔ آخر انگریزوں اور ہندوؤں کو مسلمانوں کا مطالبہ مانا پڑا اور 14 اگست 1947ء کو دنیا کے نقشے پر پاکستان کا وجو ہو گیا ۔
پاکستان کے قیام سے برصغیر کےمسلمانوں کو بظاہران کی منزل ملتی تھی لیکن قائد اعظم اور قوم کےسامنے پاکستان کا کام بھی باقی تھا۔ ملکت کے قیام سے بہت سی مشکلات کا دور شروع ہو گیا۔ بھارت نے پاکستان کے حصے کی نقد رقم اور بعض اثاثے جوکہ تقسیم کے وقت پاکستان کو ملنے تھے روک لیے جس سے ملک کی مالی حالت بے حد کمزور ہوئی۔ باؤنڈری کمیشن نے بے ایمانی سے کچھ پاکستانی علاقے بھارت میں شامل کر کے پاکستان کے لیے ایک مستقل سرحدی جھگڑا کھڑا کر دیا۔ ملک کی تقسیم سے پہلے اور تقسیم کے دوران ہندوؤں اور سکھوں نے مسلمانوں کےقتل عام اور لوٹ مار کا بازار گرم کر دیا۔ پاکستان آنے والے مہاجرین کی آباد کاری پاکستان کے لیے ایک تکمین مسئلہ بن گئی۔ قائد اعظیم کو ملک کا نظم ونسق چلانے اور ان مشکلات پر قابو پانے کیلئے دن رات محنت کرنا پڑی۔ اس دن رات کی محنت کی وجہ سے آپ کی نازک صحت خراب ہونا شروع ہو گئی۔ آپ نے اپنی بگڑتی ہوئی صحت کی پروا نہ کرتے ہوئے پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے لیے دن رات کام جاری رکھا، جس سے آپ کی صحت بالکل جواب دے
گئی۔ بالآخر 11 ستمبر 1948ء کو وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہم سے جدا ہو گئے کے قائد اعظم نے بھر پور زندگی گزاری۔ وہ تاریخ کی ایک اہم اور ممتاز شخصیت ہیں جن کی زندگی کا ہر پہلو دکش ، شک و شبہ سے بالا تر اور دوسروں کے لیے قابل تقلید ہے۔
No comments:
Post a Comment